Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔
صلح کے معاہدے کا بیان قول باری ہے (وان جنحوالسلم فجنح لھا و توکل علی اللہ۔ اور اے نبی ﷺ ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لئے جھک جائو اور اللہ پھر بھروسہ کرو) جنوح میلان اور جھکائو کو کہتے ہیں۔ اگر کشتی ایک طرف کو جھک جائے تو کہا جاتا ہے ” جنحت السفینۃ “ اور سلم مسالمت کو کہتے ہیں جس کے معنی جنگ سے سلامتی چاہنے کے ہیں۔ آیت میں حضور ﷺ کو صلح و سلامتی کی طرف مائل ہونے اور اسے قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (فاجنح لھا) فرمایا اسئے کہ یہ لفظ صلح و سلامتی سے کنایہ ہے اس حکم کے باقی ہونے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ سعید اور معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ یہ حکم قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث رجدتموھم مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کرو) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ حسن بصری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابن جریج اور عثمان بن عطا نے عطاء خراسانی سے اور انہوں نے حضرت عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ اس قول باری کو قول باری (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر، ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے) لا قول باری (وھم صاغرون) نے منسوخ کردیا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ اس آیت کا تعلق اہل کتاب سے صلح و سلامتی کے معاہدے کے ساتھ ہے جبکہ قول باری (فاقتلوا المشرکین) کا تعلق بت پرستوں سے ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے مشرکین کے مختلف گروہوں سے معاہدے کئے تھے۔ ان میں بنو قینقاع، بنو نظیر اور بنو قریظہ شامل تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے کئی مشرک قبائل سے بھی معاہدے کئے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کی۔ اس صلح کا اختتام اس وقت ہوگیا جب قریش نے حضور ﷺ کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ کے خلاف جنگی کارروائی کر کے خود اسے توڑ دیا۔ اصحاب سیر اور اہل مغازی کے بیانات اس بارے میں یکساں ہیں۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب مسلمانوں کی تعداد ابھی کم تھی، ان میں قوت و طاقت کی بھی کمی تھی لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور دین کا معاملہ قوت پکڑ گیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرکین کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے کا حکم دے دیا اور اب مشرکین سے اسلام یا تلوار پر فیصلہ کے سوا کوئی تیسری صورت باقی نہیں رکھی گئی۔ چناچہ ارشاد ہوا (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) نیز اہل کتاب سے بھی قتال کا حکم دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائیں (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر) تا قول باری (وھم صاغرون) اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة برات نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے۔ اس کا نزو ل اس وقت ہوا تھا جب حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو 9 ھ میں امیر حج بنا کر روانہ کیا تھا۔ سورة انفال کا نزول جنگ بدر کے فوراً بعد ہوا تھا۔ اس میں انفال، غنائم عہود اور مصالحتوں کا ذکر ہوا تھا اس لئے سورة برأت کے حکم کو اس امر پر محمول کیا جائے گا جس کا اس میں ذکر ہوا ہے یعنی جب مشرکین صلح کے لئے ہاتھ بڑھائیں تو تم بھی ایسا ہی کرو اس بنا پر آیت کا یہ حکم منسوخ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ثابت اور باقی تسلیم کیا جائے گا۔ دونوں آیتوں کے حکم میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزول کا پس منظر مجختلف ہے۔ جس پس منظر میں مسلمانوں کو صلح کی طرف مائل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن جس پس منظر میں مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے جزیہ دینے پر رضامندی تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں صورت حال یکسر بدلی ہوئی تھی۔ اب مسلمانوں یک تعداد بھی بڑھ گئی تھی اور دشمنوں کے مقابلہ میں طاقت و قوت پکڑ گئے تھے چناچہ ارشاد باری ہے (فلا تھنوا و تدعوا الی السلم و انتم الاعلون واللہ معکم سو تم ہمت نہ ہارو اور انہیں صلح کی طرف مت بلائو اور تم ہی غالب ہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) جب دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور انہیں تہہ تیغ کرنے کی قوت و طاقت حاصل ہو تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو صلح کی طرف پیش قدمی کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ جب سرحدی علاقوں میں بسنے والے مسلمان اور ان کے حکمران کافروں کے خلاف جنگی کارروائی کرنے اور ان کے بالمقابل صف آراء کی قوت و طاقت اپنے اندر پائیں تو اس صورت میں کافروں کے ساتھ صلح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نہ ہی کافروں کو ان کے کفر پر برقرار رہنے دینا درست ہوگا بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانا واجب ہوگا الا یہ کہ وہ جزیہ دینے پر رضامند ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں میں ان کے مقابلہ کی بھی سکن نہ ہو تو اس صورت میں کافروں کے ساتھ صلح کرنا درست ہوگا جس طرح حضور ﷺ نے کفار کے مختلف گروہوں سے صلح اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے کئے تھے اور یہ معاہدے ان پر جزیہ عائد کئے بغیر کر لئے گئے تھے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اپنے ضعف اور کمزوری کی بنا پر کافروں سے صلح کرلی جائے اور پھر مسلمانوں میں قوت و طاقت پیدا ہوجائے جس کی بنا پر وہ کافروں کے خلاف جنگی کارروائیوں کے قابل ہوجائیں تو پھر وہ ان سے معاہدے کے خاتمے کا کھلم کھلا اعلان کردیں اور پھر ان کے خلاف جنگی کاروائی شروع کردی۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ اگر مسلمانوں کے لئے مال دیئے بغیر دشمنوں سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہو تو ان کے لئے مال خرچ کردینا بھی جائز ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے جنگ خندق کے موقع پر عینیہ بن حسن فزاری وغیرہ سے مدینہ کے پھلوں کی آٰدھی پیداوار کی شرط پر صلح کا معاہدہ کرلیا تھا۔ پھر جب آپ نے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا تو حضرات انصار نے عرض کیا کہ آیا یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا آپ ﷺ کی اپنی رائے اور جنگی چال کے طور پر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میری اپنی رائے ہے اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام عربوں نے متحد ہو کر تمہارے اوپر تیر چلایا ہے اور تمہارے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ میں نے یہ چاہا کہ انہیں تم سے کسی نہ کسی دن تک کے لئے دور رکھوں “۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ اور حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول ! جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت بھی عرب کے لوگ ہم سے صرف اس بات کی توقع کی جرأت کرسکتے تھے کہ ہم اپنے باغات کے پھلوں کے ذریعے ان کی مہمان نوازی کرلیں یا پھر یہ پھل ان کے ہاتھ فروخت کردیں۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی بنا پر عزت عطا کردی ہے تو انہیں اپنی آدھی پیداوار کس طرح حوالہ کرسکتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں کریں گے ہم انہیں صرف تلوار اور اس کی دھار دیں گے “۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کو مشرکین کی طرف سے خطرہ ہو اور وہ ان کے مقابلہ پر آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں ان کے لئے یہ جائز ہوگا کہ مال دے کر ان سے اپنا پیچھا چھڑا لیں۔ یہ وہ احکام ہیں جن میں بعض تو قرآن سے ثابت ہیں اور بعض کا سنت سے ثبوت ہے۔ ان پر ان حالات میں عمل کیا جائے گا جن میں عمل کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور حضور ﷺ نے بھی ان پر عمل کیا ہے۔ ان احکام کی نظیر وہ حکم ہے جو حلیف کی میراث کے تحت ہم نے بیان کیا ہے کہ یہ حکم ثابت ہے منسوخ نہیں ہوا چناچہ ارشاد باری ہے (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم وہ لوگ جن کے ساتھ تمہارے عہد و پیمان ہوں انہیں ان کا حصہ دو ) ہم نے اس مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ جب رشتہ دار اور غلام آزاد کردینے کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء موجود نہ ہو تو اس صورت میں درج بالا آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ لیکن جب رشتہ دار یا ولاء عتاق موجود ہو تو وہ حلیف سے بڑھ کر میراث کا حقدار ہو گا… جس طرح بیٹا بھائی کے مقابلہ میں میراث کا زیادہ حق دار ہوتا ہے لیکن اس کا یہ استحقاق بھائی کو ورثاء کی فہرست سے خارج نہیں کرتا۔
Top