Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 69
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَكُلُوْا : پس کھاؤ مِمَّا : اس سے جو غَنِمْتُمْ : تمہیں غنیمت میں ملا حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
تو جو مال غنیمت تم کو ملا ہے سے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لئے) حلال (طیب) ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
مال غنیمت کی حلت قول باری ہے (فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً ۔ پس جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) آیت میں غنائم کی اباحت کا حکم ہے جب کہ اس سے پہلے اس کی ممانعت تھی۔ ہم نے اعمش کی روایت کا ذکر کردیا ہے جو انہوں نے ابو صالح سے کی ہے، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے (لم تحل الغنائم لقوم سود الرئوس قبلکم۔ تم سے پہلے سیاہ سروں والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا) زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (اعطیت خمسالم یعطھن احد قبلی، جملت لی الارض مسجد و طھورا، و نصرت بالرعب واحلت لی الغنائم، و ارسلت الی الاحمر والابیض واعطیت الشفاعۃ۔ مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ مجھ سیپ ہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں، میرے لئے روئے زمین کو سجدہ گاہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنادیا گیا، دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر میری نصرت کی گئی، میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا، مجھے سرخ و سفید سب کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھے قیامت کے دن شفاعت کا اعزاز بخشا گیا) ۔ حضور ﷺ نے ان دونوں روایتوں میں یہ بتادیا کہ آپ سے پہلے کسی بھی نبی اور کسی بھی امت کیلئے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ قول باری (فکلوا مما غنمتم) اس امر کا مقتضی ہے کہ جب مسلمان مال غنیمت اپنے قبضے میں کرلیں تو اس پر ان کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے۔ اگرچہ آیت کے الفاظ میں اس کے اکل یعنی کھانے کا ذکر ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اس کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ مملوکہ اشیاء کا سب سے بڑا فائدہ اکل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے کیونکہ خوراک پہ ہی جسمانی قوت اور زندگی کی بقاء کا دارومدار ہوتا ہے۔ لفظ اکل کا ذکر کر کے اس سے منافع اور فوائد کی تمام صورتوں کی تملیک مراد لی گئی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (حرمت علیکم المیتۃ والدم و لحم الخنزیر تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے) یہاں سور کے گوشت کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس کے تمام اجزاء کی تحریم مراد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سور سے جن فوائد کی طلب ہوسکتی ہے۔ ان کا زیادہ تر حصہ اس کے گوشت میں ہوتا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الا ذکر اللہ وذروالبیع۔ جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو ) اللہ تعالیٰ اس وقت خرید و فروخت کی ممانعت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کردیا جبکہ مراد یہ ہے کہ نماز جمعہ سے مشغول رکھنے والے تمام کاموں کی ممانعت ہے۔ بیع کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میں تمام مشغولیات سے حاصل ہونے والے فوائد اور منافع کا بیشتر حصہ خرید و فروخت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جب اس کی ممانعت ہوگئی تو اس سے کم تر چیز کی بطریق اولیٰ ممانعت ہوگئی۔ یہ بات آیت کے الفاظ سے خودبخود سمجھ میں آتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری بھی ہے۔ (ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما جو لگ ازروئے ظلم یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں) یہں خصوصیت کے ساتھ اکل یعنی کھا جانے کا ذکر وا لیکن اس کے ذریے اس امر پر بھی دلالت ہوگئی کہ اکل کی جہت کے علاوہ کسی اور جہت سے یتیم کے مال لینے اور اسے ضائع کرنے کی بھی ممانعت ہے جب لفظ کا درود اس صورت میں ہوتا ہے تو اس کا حکم ہمارے بیان کردہ معنی پر محمول ہوتا ہے اگر دلالت قائم نہ ہوجاتی اور لفظ سے اس کے معنی اس طریق پر سمجھ میں نہ آتے جس کا ذکر ہم نے کیا ہے تو مال غنیمت کھانے کی اباحت اس کی تملیک کی موجب نہ بن سکتی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا طعام کسی اور کو کھانے کی اجازت دے دے تو اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ وہ طعام اس کی ملکیت ہوجائے گا اور وہ اسے لے جاسکے گا۔ اسے تو صرف اس طعام کو کھا لینے کا حق ہوگا اور بس۔ آیت زیربحث میں خطاب باری سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ اس طریق پر تملیک کی بات ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس لئے آیت تملیک کا موجب بن گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ) اس میں اللہ تعالیٰ نے باقی ماندہ چار حصوں کو مجاہدین کے لئے مال غنیمت قرار دیا۔ اور یہ بات تملیک کی مقتضی ہے۔ اسی طرح ظاہر قول باری (فکلوا مما غنمتم) بھی تملیک کا مقتضی ہے اس لئے کہ جب غنیمت کی نسبت جنگ میں شریک لوگوں کی طرف کی گئی تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ آیت میں لفظ غنیمت کا اطلاق کر کے مال غنیمت کو جنگ میں شریک لوگوں کی ملکیت میں دے دیا گیا ہے۔ پھر اس پر اکل کا عطف اس تملیک کی نفی نہیں کرتا جسے آیت متضمن ہے۔ جس طرح اگر یہ ارشاد ہوتا (کلوا مما ملکتم “ (جس چیز کے تم مالک بن گئے ہو اس میں سے کھائو) تو اکل کے لفظ کا اطلاق ملکیت کی صحت کیلئے مانع نہ بنتا۔ اس بات پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ حرف فاء اس پر داخل کیا گیا ہے گویا یوں ارشاد ہوا قد ملکتم ذلک فکلوا “ (تم اس کے مالک بن چکے ہو اس لئے اس میں سے کھائو) کفار سے قتال کے ذریعے جو مال و اسباب حاصل کیا جاتا ہے غنیمت کا لفظ اس کے لئے اہم ہے۔ اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہوتا ہے اور باقی چار حصے مال غنیمت حاصل کرنے والوں کے لئے ہوتے ہیں چناچہ ارشاد باری ہے۔ (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ) غنیمت اور فئی کا فرق فئی مشرکین کے ان اموال کا نام ہے جو قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں۔ غنیمت اور فئی کے درمیان اس فرق کو عطاء بن السائب اور سفیان ثوری سے نقل کیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فئی مشرکین کے ان تمام اموال کو کہتے ہیں جو قتال کے ذریعے یا بغیر قتال کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں اس لئے کہ کفر وہ سبب ہے جس کی بنا پر یہ مال مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جزیہ فئی ہے اسی لئے خراج اور وہ تمام اموات بھی فئی کہلاتے ہیں جو امام المسلمین اپنے دشمنوں سے صلح اور سلامتی کے معاہدے کی بناء پر لیتا ہے۔ قول باری ہے (ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القریٰ فلقد و للرسول۔ جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئی دلوائے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا) ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ فئی ہے جو مسلمانوں نے جنگی کارروائی کئے بغیر حاصل یکا تھا مثلاً فدک نیز اہل بخران سے حاصل شدہ مال، حضور ﷺ کی صوابدید پر چوڑ دیا گیا تھا کہ آپ ﷺ فئی کو ان مصارف میں جس طرح چاہیں صرف کریں۔ ایک قول ہے کہ یہ آیت غنام کے بارے میں تھی پھر قول باری (واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ) کی بناء پر منسوخ ہوگئی۔ ہمارے نزدیک اس بات کی گنجائش ہے کہ آیت کو منسوخ نہ کہا جائے بلکہ آیت غنیمت کو ان صورتوں پر محمول کیا جائے جن میں مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے فوج کشی کی ہو اور جنگ کی بنا پر غلبہ حاصل کیا ہو اور سورة حشر کی آیت فئی کو ان صورتوں پر محمول کیا جائے جن می مسلمانوں کو گھوڑے اور اونٹ دوڑانے یعنی جنگی کارروائی کی ضرورت پیش نہ آئی ہو بلکہ کافروں سے یہ مال صلح اور سلامتی کے معاہدوں کی بنا پر حاصل ہوا ہو۔ مثلاًحضور ﷺ کو اہل نجران اور اہل فدک سے کسی جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے اموال وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
Top