Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے اہل ایمان ! خدا سے ڈرتے رہو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔
قول باری ہے یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصارقین ۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے ان کی یہ تفسیر مروی ہے کہ سچائی کو لازم پکڑو اور اس سے ہرگز روگردانی نہ کرو اس لیے کہ جھوٹ کی کسی حالت میں بھی گنجائش نہیں ہے ؟ نافع اور ضحاک کا قول ہے کہ دنیا میں عمل صالح کے ذریعے انبیاء اور صدیقین کی معیت حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا لیس البر ان تولوا وجو ھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کرلو لیکن نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور ریوم آخر پر ایمان لائے ۔ تا قول باری اولیک الذی صدقوا یہی لوگ سچے ہیں۔ اجماع صحابہ ؓ حجت ہے درج بالا آیت میں حضور ﷺ کے صحابہ کرام یعنی حضرات مہاجرین و انصار کی صفت بیان کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمایا کونوا مع الصادقین اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ ان سب آیات کا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی پیروی اور انکے نقش قدم پر چلنا لازم ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں یہ بتادیا کہ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے۔ وہ سچے ہوں گے اور پھر اس آیت میں فرمایا وکونوا مع الصادقین یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کا اجماع ہمارے لیے دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے لیے ان کی مخالفت کسی طرح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ قول باری ہے لقد تاب اللہ علی النبی والمھاجرین والانصار الذین اتبعوا فی ساعۃ السعرۃ ۔ اللہ نے معاف کردیا نبی ؐ کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا آیت میں حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی تعریف کی گئی ہے ۔ یعنی وہ حضرات مہاجرین و انصار جو حضور ﷺ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں گئے تھے نیز اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے باطن کی صحت اور قلب و ضمیر کی طہارت کی بھی اطلاع دی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر ، کہ اس نے انہیں معاف کردیا صراسی وقت دی ہے جبکہ وہ ان سے راضی ہوگیا اور ان کے افعال اسے پسند آ گئے آیت ان لوگوں کی تردید کے لیے نص ہے جو صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرتے اور ایسے افعال کی طرف ان کی نسبت کرتے ہیں جن کی طرف اللہ نے ان کی نسبت نہیں کی ہے، اللہ نے ان کی نسبت پاکیزگی اور طہارت کی طرف کی ہے اور انہیں اس وصف سے متصف فرمایا ہے کہ ان کے قلوب پاکیزہ اور ان کا باطن درست ہے ؓ ! !!
Top