Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
نَّكَثُوْٓا
: وہ توڑ دیں
اَيْمَانَهُمْ
: اپنی قسمیں
مِّنْۢ بَعْدِ
: کے بعد سے
عَهْدِهِمْ
: اپنا عہد
وَطَعَنُوْا
: اور عیب نکالیں
فِيْ
: میں
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَقَاتِلُوْٓا
: تو جنگ کرو
اَئِمَّةَ الْكُفْرِ
: کفر کے سردار
اِنَّهُمْ
: بیشک وہ
لَآ
: نہیں
اَيْمَانَ
: قسم
لَهُمْ
: ان کی
لَعَلَّهُمْ
: شاید وہ
يَنْتَهُوْنَ
: باز آجائیں
اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں تو (ان) کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو (یہ بےایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ (اپنی حرکات سے) باز آجائیں۔
دین پر زبان درازی ناقابل برداشت ہے قول باری ہے (ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے اوپر حملے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو) اس میں دلالت موجود ہے کہ معاہدہ ج کرنے والے اگر معاہد کی کسی شق کی خلاف ورزی کے مترکب پاے جائیں اور ہمارے دین کے متعلق زبان درازی پر اترائیں تو وہ معاہدہ توڑنے کے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس لئے کہ قسموں کو توڑنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں قسمیں کھائی گئی ہوں ان میں سے بعض کی خلاف ورز یکر لی جائے۔ اگر قسم نفی کی صورت میں کھائی گئی ہو، مثلاً کسی نے یہ قسم کھائی ہو کہ بخ دائیں نہ زید سے کلام کروں گا اور نہ عمرو سے اور نہ میں اس گھر میں داخل ہوں گا نہ اس گھر میں۔ “ اگر یہ شخص ان میں سے کوئی کام بھی کرلے گا و حانث ہوجائے گا اور اپنی قسم توڑ بیٹھے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب اس کے ساتھ دین کے بارے میں زبان درازی کو بھی شام کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غیرمسلموں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی بقا کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے دین کے بارے میں کوئی زبان درازی نہ کریں، نیز یہ کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے دین پر حملے کی اجازت نہیں ہے۔ شاتم رسول واجب القتل ہے یہ چیز ان فقاء کے قول کے لئے شاہد کی حیثیت رکھتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ذمیوں میں سے اگر کسی نے حضور ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں سب دشتم کا اظہار کیا تو وہ نقص عہد کا مرتکب قرار پائے گا اور واجب القتل ٹھہرے گا تاہم اس مسئلے میں فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اسے تعزیری سزا دی جائے گی قتل نہیں کیا جائے گا۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے کوئی شخص بھی اگر سب و شتم کرے گا تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی الا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ ولید بن مسلم نے اوزاعی اور امام مالک سے روایت کی ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ مرتد ہوجائے گا۔ اس سے توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اگر توبہ کرلے گا تو اسے بہرحال سخت سزا دی جائے گی اور اگر ر توبہ نہیں کرے گا تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی امام ماملک کا قول ہے کہ ایسے شخص کی سزا کی صورت یہ ہوگی کہ پہلے سو کوڑے لگائے جائیں گے پھر چھوڑ دیا جائے گا حتیٰ کہ جسانی طور پر صحت یاب ہوجائے اس کے بعد پھر اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام مالک نے اس بارے میں مسلمان اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ لیث بن سعد کچا قول ہے کہ اگر کوئی مسبلمان ایسی حرکت کرے گا تو اسے نہ تو مہلت دی جائے گی، نہ توبہ کے لئے کہا جائے گا بلکہ فوراً ہی اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ یہی حکم یود و نصاری کے لئے بھی ہے۔ نقض عہد کی مثالیں امام شافعی کا قول ہے کہ کافرں سے جو صلغ کی جائے اس میں ایک شرط یہ بھی رکھی جائے اگر ان کا کوئی آدمی اللہ کی شان میں یا حضور ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں کوئی نازیبا کلمہ کہے گا یا کسی مسلمان عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرے گا یا ناح کے نام پر اس سے ہمبستری کرے گا یا کسی کو اس کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرے گا یا کسی مسلمان کی راہزنی کرے گا یا مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار کافروں یعنی اہل حرب کی مدد کرے گا تو ان تمام صورتوں میں وہ نقض کا مرتکب قرار پائے گا اور اس کی جان اور اس کے مال کی حفاظت کی اللہ اور اس کے رسول نے جو ذمہ داری اٹھائی تھی وہ ختم ہوجائے گی اور اس کی گردن اڑا دینا حلال ہوجائے گا۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص حضور ﷺ پر سب و شتم کرے گا اگر وہ معاہد ہوگا تو اس حرکت کی بنا پر نقض عہد کا مرتکب ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر) اللہ تعالیٰ نے طعن فی الدین کو بمنزلہقسم توڑنا قرار دیا کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ نقض عہد کے لئے قسم توڑنے اور دین کے بارے میں زبان درازی کرنے کی دونوں باتوں کے مجموعے کو شرط قرار دینا آیت میں مراد نہیں ہے اس لئے کہ اگر آیت میں مذکورہ لوگ اپنی قسم توڑ کر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجاتے تو دین کے بارے میں زبان درازی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ نقض عہد کے مرتکب قرار دیئے جاتے۔ حضور ﷺ نے اپنے حلیف قبیلہ بنی خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی امداد کرنے پر قبیلہ قریش کو نقض عہد کا مترکب قرار دیا تھا حالانکہ قریش نے یہ سب کچھ خفیہ طور پر کیا تھا اور علانیہ دین اسلام کے متعلق زبان درازی بھی نہیں کی تھی اس سے یہ ثابت ہوگئی کہ آیت کے معنی یہ ہیں ک اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں یا دین کے بارے میں زبان درازی کریں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو “۔ حضور ﷺ پر سب و شتم دین پر حملے کی گھنائونی شکل ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو معاہدہ میں شامل کوئی شخص اگر حضور ﷺ پر سب و شتم کا اظہار کرے گا وہ نقض عہد کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کی ذات اقدس پر سب و شتم کرنا دین پر حملے کی ایک انتہائی گھنائونی شکل ہے۔ درج بالا مسلک کے قائلین کے استدلال کی یہ صورت ہے اس مسلک کے حق میں اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جو امام ابو یوسف نے حصین بن عبدالرحمن سے نقل کی ہے انہوں نے ایک شخص سے، اس شخص نے ابو عر سے کہ کسی نے ان سے کہا کہ میں نے ایک راہب کو حضور ﷺ پر سب و شتم کرتے سنا تھا۔ یہ سن کر ابوعمر کہنے لگے کہ اگر میں سنتا تو اسے ضرور قتل کردیتا۔ ہم نے ان سے معادہ کر کے ایسی حرکت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے لیکن سا روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ معاہدہ میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ یہ لوگ حضور ﷺ پر سب و شتمکا اظہار نہیں کریں گے۔ سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضور ﷺ کے پاس سے گزرا ار خبث باطن سے کام لیتے ہوئے کہا : ” السام علیک “ (تمہیں موت ہو) نعوذ باللہ ! حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا ” تمہیں پتہ چلا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ “ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر وہی یہودی واپس آیا تو واپسی میں بھی یہی کلمہ کہا، آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا۔ ” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں اس طرح سلام کرے اس کے جواب میں صرف یہ کہہ دیا کرو ” علیک “۔ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور ﷺ کے پاس آئی اور آتے ہی “ لسام علیکم کہا۔ حضرت عائشہ ؓ فماتی ہیں میں سمجھ گئی اور جواب میں میں نے کہا و علیکم السام واللعنۃ (تم پر موت اور لعنت ہو) اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! سنو، اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے “ میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بھی انہیں ” وعلیکم “ ہی کہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسی بات کہتا تو وہ مرتد ہو کر قتل کا سزاوار قرار پاتا۔ حضور ﷺ نے اس بات پر ان یہودیوں کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیا۔ شعبہ نے ہشام بن یزید سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی عورت حضور ﷺ کے پاس بکری کا زہر آلود گوشت لے کر آئی، آپ ﷺ نے اس میں سے کھالیا، اس عورت کو پکڑ کر آپ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ اسے قتل کردینے کا حکم نہیں دیں گے ؟ آپ نے فرمایا ” نہیں “ مسلمان شاتم رسول واجب القتل ہے حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے حضور ﷺ کے تمام رویوں میں یہی نرمی ہمیشہ نظر آتی رہی۔ اہل اسلام کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دین اسلام کا کوئی مدعی اگر حضور ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق یہ ریہ اختیار کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور واجب القتل قرار پائے گا۔ آپ ﷺ نے اس یہودی عورت کی حرکت پر اسے واجب القتل قرار نہیں دیا اس لئے کہ اگر کوئی ذمی آپ پر سب و شتم کا اظہار کرے گا وہ بھی واجب القتل قرار نہیں پائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان ایسی حرکت کرے گا وہ قتل کا سزا وار ٹھہرے گا، اس معاملے میں ذمی پر عائد ہونے والا حکم مسلمان پر عائد ہونے والے حکم سے مختلف ہے قول باری (فقاتلوا المۃ الکفر) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد قریش کے رئوسا ہیں۔ قتادہ کے قول کے مطابق ابوجہل امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ اور سہیل بن عمرو مراد ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور ﷺ کو مکہ سے نکلوانے کی سازش کی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة براء ۃ فت مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور حضور ﷺ نے حضرت علی کو مکہ بھیجا تھا کہ وہ جا کر وہاں موجود تمام لوگوں کو یہ سورت پڑھ کر سنا دیں۔ یہ 9 ھ کا واقعہ ہے اور اسی سال حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جبکہ ابوجہل، امیہ بن خلف اور عتبہ بن ابی ربیعہ بدر کے معرکہ میں قتل ہوگئے تھے۔ نیز سورة براء ۃ کے نزول ک وقت زوساء قریشی میں سے ایک بھی ایسا شخص باقی نہیں رہ گیا تھا جو کفر کا اظہار کرسکتا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ جن حضرات سے یہ مروی ہے کہ زیربحث آیت میں رئوساء قریش مراد ہیں ان کا یہ قول وہم ہے حقیقت نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس سے قریش کا وہ گروہ مراد لیا جائے جس نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام کا اظہار کردیا تھا اور وہ طلقا، یعنی آزاد کہلائے تھے۔ مثلا ابو سفیان اور ان کا گروہ، ان کا دل ابھی تک کفر سے پوری طرح پاک نہیں ہوا تھا۔ اس طرح یہ لوگ آیت زیربحث میں مراد ہوسکتے ہیں۔ آیت میں وہ مشرکین مراد نہیں ہیں جن کے ساتھ حضور ﷺ نے معاہدہ کیا تھا اور انہوں نے اسلام کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے مل کر حضور ﷺ کو مکہ سے نکلوانے کی سازش کی تھی لیکن ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنگ و قتال کے ذریعے اس گروہ کو بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں وہ لوگ مراد ہوں جن کا ہم نے ابیھ ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ وہ تمام روساء عرب بھی مراد ہوں جو حضور ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ہمیشہ قریش کی مدد کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دے دیا کہ ایسے لوگ اگر اپنی قسمیں توڑ لیں اور تمہارے دین پر حملے شروع کردیں تو تم انہیں قتل کرو اور ان سے لڑو۔ قول باری ہے (انھم لا ایمان لھم۔ کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں) یعنی ان کی قسمیں ایسی ہیں جو درحقیقت پکی نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ان کی قسموں کے وجود کی نفی ہیں ہوتی، اس لئے پہلے ارشاد ہو چک ہے (و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم) نیز اس پر یہ قول باری عطف ہے (الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم۔ کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری الا ایمان لھم) سے سرے سے قسموں کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ قسموں پر قائم رہنے کی نفی مراد ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حرف لا کا اطلاق کر کے فعل کی نفی مراد لینا اور اصل کی مراد نہ لینا جائز ہے، احادیث اور کلام عرب میں اس کی مثالیں موجود ہیں جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لا صلوۃ لجاد المسجد الا فی المسجد۔ مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا اور کہیں نہیں ہوتی) یا (لیس بمومن من لا یامن جارہ بوائقہ۔ وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ ہو) یا (لا وضوء لم لم یذکر اسم اللہ۔ جس نے اللہ کا نام نہیں لیا اس کا کوئی وضو نہیں) یا اسی طرح کی اور مثالیں۔ ائمہ کفر کون ہیں ؟ آیت میں کفر کے اندر امامت کا ذکر ہوا۔ اس لئے کہ امام وہ شخص ہوتا ہے جو خبر و شر میں لوگوں کا مقتداء ہوتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (وجعلنا ھم ائمۃ یدعون الی النار ہم نے انہیں مقتدا بنایا جو لوگوں کو آگ کی طرف بلاتے تھے) یہ شر کی مثال تھی۔ خیر کی مثال یہ قول باری ہے (وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا۔ ہم نے انہیں مقتدا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے) اس طرح جو شخص خیر میں مقتدا اور امام ہوتا ہے وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت دیتا اور ان کی رہنمائی کرتا ہے لیکن جو شخص شر میں پیشوا ہوتا ہے وہ خود بھی گمراہ ہوتا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ ایک قول ک مطابق اس آیت کا نزول ان یہودیوں کے بارے میں ہوا تھا جنہوں نے حضور ﷺ سے بد عہدی کرتے ہوئے اپنے اس عہد و پیمان اور قسموں کو توڑڈالا تھا کہ وہ آپ کے خلاف مشرکین کی مدد نہیں کریں گے۔ انہوں نے منافقوں اور کافروں کے تعاون سے آپ کو مدینہ منورہ سے نکلوانے کی سازش بھی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ بد عہدی اور معاہدے کی خلاف ورزی کی ابتدا انہوں نے کی ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ چناچہ ارشاد ہے (و قاتلوھم یعذبھم اللہ یایدیکم۔ ان سے جنگ کرو تمہارے ہاتھوں سے انہیں سزا دلوائے گا) یہاں یہ کہنا بھی درست ہے کہ مذکورہ بالا تمام امور قول باری (و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم) پر مرتب مانے جائیں اور یہھی درست ہے کہ قول باری (الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم) کی رو سے انہوں نے نقض عہد کیا تھا۔
Top