Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 16
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم گمان کرتے ہو اَنْ : کہ تُتْرَكُوْا : تم چھوڑ دئیے جاؤگے وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : معلوم کیا اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَمْ يَتَّخِذُوْا : اور انہوں نے نہیں بنایا مِنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا رَسُوْلِهٖ : نہ اس کا رسول وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ : اور نہ مومن (جمع) وَلِيْجَةً : راز دار وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ (بےآزمائش) چھوڑ دیے جاؤ گے ؟ اور ابھی تو خدا نے ایسے لوگوں کو متمیز کیا ہی نہیں جنہوں نے تم سے جہاد کئے اور خدا اور اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا۔ اور خدا تمہارے (سب) کاموں سے واقف ہے۔
راہ حق میں آزمائش شرط لازم ہے قول باری ہے (ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ۔ کیا تم وگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے ص اس راہ میں) جانفشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو دلی دوست نہ بنایا) اس کے معنی یہ ہیں ” کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی تم نے جہاد نہیں کیا۔ “ اس لئے کہ جب وہ جہاد کریں گے تو اللہ کو ان کی یہ بات معلوم وہ گی۔ علم کے اسم کا اطلاق کر کے اس سے فریضہ جہاد کی ادائیگی مراد لی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰٓ کو ان کے اندر اس فریضہ کی ادائیگی کے وجود کچا علم ہوجائے۔ قول باری (ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ) مومنین کی پیروی کے لزوم اور انہیں چھوڑ کر کسی اور کی طرف نہ جانے کے حکم کا مقتضی ہے جس طرح تمام مسلمانوں پر حضور ﷺ کی پیروی لازم ہے۔ اس سے اجماع کی حجت کی دلیل ملتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے۔ (و من یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدین و شتبع غیر سبیل المومنین تولہ ما تولیٰ مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روشنی کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ) ولیجہ، مدخل یعنی جائے دخول کو کہتے ہیں۔ جب کوئی شخص داخل ہو تو کہا جاتا ہے ” ولج فلان “ (فلاں شخص داخل ہو ! ) گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ” یہ جائز نہیں کہ اس کیلئے مسلمانوں کے مدخل کے سوا اور کوئی جائے دخول ہو۔ “ ایک قول ہے کہ ولیجہ کے معنی دخلیہ اور بطانۃ کے ہیں یعنی ہر چیز کا اندرونی حصہ، بھید اور راز۔ یہ لفظ مداخلت، مخالطت اور موانست کے ہم معنی ہے۔ اگر اس لفظ کے یہ معنی لئے جائیں تو پھر اسے یہ دلالت حاصل ہوگی کہ مسلمانوں کو غیرمسلموں کے ساتھ گھل مل جانے، ان میں جا گھسنے اور دین کے معاملات میں ان سے مدد حاصل کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے جس طرح یہ ارشاد باری ہے (لا تتخذوا بطانۃ من دونکم) اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو اپنا رازدان نہ بنائو)
Top