Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠ ۧ
قَاتِلُوا
: تم لڑو
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَا
: اور نہ
بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یومِ آخرت پر
وَلَا يُحَرِّمُوْنَ
: اور نہ حرام جانتے ہیں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام ٹھہرایا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
وَلَا يَدِيْنُوْنَ
: اور نہ قبول کرتے ہیں
دِيْنَ الْحَقِّ
: دینِ حق
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوا الْكِتٰبَ
: کتاب دئیے گئے (اہل کتاب)
حَتّٰي
: یہانتک
يُعْطُوا
: وہ دیں
الْجِزْيَةَ
: جزیہ
عَنْ
: سے
يَّدٍ
: ہاتھ
وَّهُمْ
: اور وہ
صٰغِرُوْنَ
: ذلیل ہو کر
جو لوگ اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
کن لوگوں سے جزیہ وصول کیا جانا چاہیے قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ورسولہ) تا قول باری (حتی یعطوا لجزیۃ عن یدولم صاغرون) آیت کے مضمون اور اس کے انداز بیان سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے جزیہ ان لوگوں سے وصول کیا جائے گا جو جنگ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے یعنی اہل قتال ہوں گے۔ اس لئے کہ خصاب الٰہی کا ایسے لوگوں کے ساتھ قتال کے حکم پر مشتمل ہونا محال ہے جو قتال کی اہلیت ہی نہ رکھتے ہوں کیونکہ قتال کا فعل ہمیشہ دو شخصوں کے درمیان سرانجام پاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مقاتل قرار پاتا ہے یعنی دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوتا ہے۔ جزیہ کی وصولی اہل قتال و اہل حرفہ سے ہوگی جب یہ بات اس طرح ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جزیہ ان لوگوں سے لیا جائے گا جو قتال کی اہلیت رکھتے ہوں گے اور ان اہل حرفہ سے جن کے لئے اس کی ادائیگی ممکن ہوگی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو اس پر جزیہ عائد نہیں ہوگا۔ ان کا قول ہے کہ اگر ایک شخص نابینا یا مفلوج یا انتہائی بوڑھا یا ہاتھ پائوں سے معذور ہوگا تو مالدار ہونے کے باوجود اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ مشہور روایت کے مطابق ہمارے تمام اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف سے ایک روایت ہے کہ اگر نابینا شخص یا ہاتھ پائوں سے معذور انسان یا انتہائی بوڑھا آدمی مالدار ہوگا تو اس سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔ امام ابو یوسفے امام ابوحنیفہ کے قول کی مطابقت میں بھی روایت منقول ہے۔ ابن رستم نے اپنے ” نوادلہ “ میں امام محمد سے اپنا سوال اور ان کا جواب نقل کیا ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا : آپ کا کیا خیال ہے کہ بنی تغلب کے نصاریٰ اور دوسرے اہل کتاب اگر اہل حرفہ نہ ہوں اور ان کے پاس مال وغیرہ بھی نہ ہو اور انہیں مال وغیرہ حاصل کرنے کی قدرت بھی نہ ہو تو آیا ایسے لوگوں پر جزی عائد ہوگا ؟ امام محمد نے جواب میں فرمایا : ” ایسے لوگوں پر کوئی چیز عائد نہیں کی جائے گی۔ “ امام محمد کا قول ہے کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا جائے گا جو مال دار ہوں گے اور کام کاج کرتے ہوں گے۔ آپ کا یہ بھی قول ہے کہ اگر ایک عیسائی کمائی تو کرتا ہے لیکن اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس سے کوئی جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ گرجوں میں رہنے والے لوگوں نیز سیاحوں سے کوئی جزیہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہوں اور ان کے ساتھ اختلاط نہ کرتے ہوں، اور ایسے لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہوں تو ان پر جزیہ عائد کردیا جائے گا۔ عورتوں اور بچوں پر کوئی جزیہ عائد نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ وہ جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ ایوب اور دو سے راویوں نے نافع سے اور انہوں نے اسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے افواج کے سپہ سالاروں کو تحریری طور پر حکم دیا تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کے خلاف ہتھیار استعمال کریں گے جو ان کے مقابلہ پر آئیں گے۔ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کریں گے اور صرف ان لوگوں کو قتل کریں گے جن کے موئے زیر ناف پر استرے پھرے ہوں گے یعنی وہ بالغ ہوں گے۔ جزیہ بالغوں سے اسی طرح آپ نے لشکروں کے سرداروں کو تحریری حکمنامہ بھیجا تھا کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں لوگوں پر جزیہ عائد کریں گے عورتوں اور بچوں پر اسے عائد نہیں کریں گے صرف ان لوگوں پر عائد کریں گے جن کے موئے زیر ناف پر استرے پھرے ہوں گے۔ عاصم نے ابو وائل سے انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ میں ہر بالغ مرد اور بالغ عورت سے ایک ایک دینار یا اس کے مساوی قبیلہ معافر کا بنایا ہوا کپڑا وصول کروں۔ جزیہ کی مقدار جزیہ کی مقدار کیا ہو ؟ ارشاد باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید) میں ظاہر آیت کے لحاظ سے اس کی مقدار پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے فقہاء کے مابین جزیہ کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جزیہ ادا کرنے والوں میں جو شخص مالدار ہوگا اس سے اڑتالیس درہم وصول کئے جائیں گے۔ متوسط الحال شخص سے چوبیس درہم اور تنگدست مگر کام کاج کرنے والے سے بارہ درہم وصول کئے جائیں گے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جن لوگوں کے پاس سونا ہوگا ان سے چار دینار اور جن کے پاس چاندی ہوگی ان سے چالیس درہم وصلو کئے جائیں گے۔ مالدار اور فقیر میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ اس مقدار میں نہ کمی کی جائے گی اور نہ اضافہ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ خواہ مالدار ہو یا فقیر ہر شخص پر ایک دینار عائد ہوگا۔ ابو اسحٰق نے حارثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عثمان ؓ بن حنیف کو عراق روانہ کیا تھا، انہوں نے دیہی علاقوں میں رہنے والوں پر خرچ کے طور پر اڑتالیس، چوبیس اور بارہ درہم فی کس کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔ اعمش نے ابراہیم بن مہاجر سے، انہوں نے عمرو بن میمون سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کو دریائے دجلہ کی دوسری جانب کے علاقوں اور حضرت عثمان ؓ بن حنیف کو دریا کی اس جانب کے علاقوں کا مال افسر بناکر بھیجا تھا دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر مرد پر ماہانہ چار درہم جزیہ عائد کیا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آیا لوگوں کو یہ رقم ادا کرنے کی استطاعت تھی تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ لوگ زمیندار تھے اور فصلیں کاشت کرتے تھے۔ عمرو بن میمون نے سالانہ اڑتالیس درہموں کا ذکر کیا لیکن لوگوں کے طبقات میں کوئی فرق بیان نہیں کیا۔ جبکہ حارثہ بن مضرب نے تین طبقات کی تفصیل بیان کی۔ اس لئے ضروری ہے کہ عمرو بن میمون کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے کہ ان کی اس سے مراد یہ ہے زیادہ سے زیادہ جزیہ جو عائد کیا جاتا تھا وہ ان لوگوں پر عائد کیا جاتا تھا جن کا تعلق سب سے اونچے طبقے سے ہوتا تھا۔ متوسط اور سب سے نچلا طبقہ اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ امام مالک (رح) نے نافع سے اور انہوں نے اسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے سونا رکھنے والوں پر چار دینار اور چاندی رکھنے والوں پر چالیس درہم کا جزیہ عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خوراک اور تین دنوں تک ضیافت بھی ان کے ذمے تھی۔ یہ روایت عمرو بن میمون کی روایت کے ہم معنی ہے اس لئے کہ مسلمانوں کی خوراک اور تین دن تک کی ضیافت اور اس کے ساتھ چالیس درہم نقد کل ملاکر اڑتالیس درہم کے مساوی ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر وہ روایت جس میں طبقات کی تفصیل موجود ہے اس پر عمل اس روایت کی بہ نسبت اولیٰ ہوگا جس میں یہ تفصیل نہیں ہے اس لئے کہ پہلی روایت میں اضافہ ہے نیز ہر طبقے کا حکم بیان کردیا گیا ہے نیز یہ کہ جو لوگ طبقات کے لحاظ سے جزیہ کی رقمیں عائد کرنے کے قائل ہیں وہ اڑتالیس درہم والی روایت پر بھی عمل پیرا ہیں۔ لیکن جو لوگ طبقات کے قائل نہیں اور یکساں طور پر اڑتالیس درہم کی مقدار کے قائل ہیں وہ اس روایت کے تارک قرار پائیں گے جس میں مختلف طبقات کا ذکر کرکے ہر طبقے کے ساتھ ایک خاص رقم کی تخصیص کردی گئی ہے۔ جو لوگ مالدار اور فقیر سب پر ایک دینار فی کس کے حساب سے جزیہ عائد کرنے کے قائل ہیں انہوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تھا تو انہیں یہ حکم دیا تھا کہ ہر بالغ مرد اور ہر بالغ عورت سے ایک ایک دینار یا اس کے ماسوی معافری کپڑا وصول کریں۔ ہمارے نزدیک یہ حکم اس صورت پر محمول ہے جب صلح کے طور پر اس قسم کا تعین کیا گیا ہو یا یہ صورت ہوسکتی ہے کہ ان میں سے جو فقراء تھے ان پر جزیہ کی یہ رقم عائد کی گئی تھی۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت معاذ ؓ سے منقول بعض روایات میں اس کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت سے ایک ایک دینار جزیہ کے طور پر وصول کریں جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عورتوں سے صرف اسی صورت میں جزیہ وصول کیا جائے گا جب صلح کے اندر اس کی شرط رکھی گئی ہو۔ ابو عبید نے جریر سے، انہوں نے منصور سے اور انہوں نے حکم سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے حضت معاذ کو جبکہ وہ یمن میں تھے تحریری حکم بھیجا تھا کہ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت پر ایک ایک دینار یا اس کے مساوی معافری کپڑا بطور جزیہ عائد کردیا جائے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں عثمان بن صالح نے عبداللہ بن لہیعہ سے اور انہوں نے ابو الاسود سے، انہوں نے عروہ ؓ بن الزبیر سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے اہل یمن کو تحریر فرمایا تھا کہ جو شخص یہودیت یا نصرانیت پر قائم رہے گا اور اسے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوگا اس پر جزیہ عائد ہوجائے گا۔ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت پر خواہ وہ غلام ہو یا لونڈی یا آزاد ایک ایک دینار یا اس کی قیمت کے مساوی معافری کپڑا ادا کرنا لازم ہے۔ جزیہ تین طبقوں پر ہے جزیہ تین طبقوں پر عائد ہوتا ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اراضی پر لگان یا خراج زمین کی طاقت اور اس کی پیداوار کے لحاظ سے عائد کیا جاتا ہے۔ اس لئے زمین کی پیداواری صلاحیت کے اختلاف سے خراج کی مقدار بھی مختلف ہوجاتی ہے۔ بعض پر ایک قفیر غلہ مع ایک درہم، بعض پر پانچ درہم اور بعض پر دس درہم کی مقدار عائد کردی جاتی ہے۔ اس لئے فی کس عائد ہونے والا ٹیکس یعنی جزیہ جو درحقیقت خراج کی ایک صورت ہے، اس میں بھی اختلاف احوال کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اور جزیہ ادا کرنے والے کی اہلیت اور اس کی طاقت کے لحاظ سے ان کی مقدار میں فرق ہونا چاہیے۔ جزیہ بساط کے مطابق اس پر حضرت عمر ؓ کی ہدایات دلالت کرتی ہیں جو آپ نے حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ اور حضرت عثمان ؓ بن حنیف کو دی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ شاید تم لوگ زمینداروں پر ٹیکس کا اتنا بوجھ ڈال دو جسے وہ برداشت نہ کرسکیں، اس پر دونوں نے کہا تھا کہ ہم ان کے لئے ایک فصل چھوڑ دیں گے، یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ طاقت اور وسعت کا اعتبار کیا جاتا ہے اور یہ چچیز تنگدستی اور مالداری کی دونوں حالتوں کے اعتبار کو واجب کردیتی ہے۔ یحییٰ بن آدم نے ذکر کیا ہے کہ جزیہ کی مقدار کسی توقیت اور وقت کی تعیین کے بغیر اتنی ہوگی جتنی کہ جزیہ ادا کرنے والا ادا کرسکتا ہو لیکن یحییٰ کی یہ بات اجماع کے خلاف ہے۔ حسن بن صالح سے منقول ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جزیہ کی جو مقدار مقرر کی تھی اس میں اضافہ تو جائز نہیں ہے البتہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے دوسر حضرات کا قول ہے کہ اس میں اضافہ اور کمی دونوں کی گنجائش ہے۔ یہ کمی بیشی جزیہ ادا کرنے والے کی طاقت و استطاعت کو مدنظر رکھ کر کی جائے گی۔ الحکم نے عمرو بن میمون سے روایت کی ہے کہ وہ حضرت عمر ؓ کے پاس موجود تھے جب آپ حضرت عثمان ؓ بن حنیف کو یہ ہدایات دے رہے تھے کہ بخدا اگر تم فی ؟ ؟ ایک قفیر (ایک پیمانے کا نام) غلہ مع ایک درہم اور فی کس دو درہم عائد کردوگے تو یہ مقدار وہاں کے باشندوں کے لئے کوئی ناقابل برداشت مقدار نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی اتنی مقدار ادا کرنے میں انہیں کوئی مشقت اٹھانی پڑے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کی مقدار اڑتالیس درہم تھی۔ عثمان بن حنیف نے اس کی مقدار پچاس درہم کردی تھی۔ اس روایت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو اضافے کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ روایت مشہور نہیں ہے اور اصول حدیث کے مطابق اس کی روایت ثابت بھی نہیں ہے۔ ان حضرات نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس کے راوی ابو الیمان ہیں، انہوں نے صفوان بن عمرو سے اور انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت کی ہے کہ انہوں نے گرجوں کے راہبوں پر فی کس دو دینار کے حساب سے جزیہ عائد کیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ روایت اس پر محمول ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق کی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے راہبوں پر فی کس کے حساب سے یہ رقم عائد کی تھی اس لئے کہ یہ لوگ ان کی رائے میں اس رقم کی ادائیگی کا بوجھ برداشت کرسکتے تھے جس طرح سفیان بن عینیہ نے ابن ابی نجیح سے روایت کی ہے کہ ” میں نے مجاہد سے پوچھا تھا کہ حضرت عمر ؓ نے اہل شام پر اہل یمن کی بہ نبست زیادہ جزیہ کیوں عائد کیا تھا ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ اہل شام میں فراخی اور خوش حالی تھی اس بنا پر جزیہ کی زائد مقدار عائد کی گئی تھی۔ طبقات کے درمیان امتیاز کا بیان مختلف طبقات انسانی پر مقدار جزیہ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بیان کیا ہے کہ لوگوں سے ان کے طبقات کے حساب سے جزیہ وصول کیا جائے گا جس کی تفصیل یہ ہے، خوش حال شخص سے اڑتالیس درہم، اس میں صراف، بزاز، صنعت کار، تاجر معالج اور طبیب شامل ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی اس میں شامل ہوگا جس کے ہاتھ میں کوئی صنعت اور تجارت ہوگی جسے اس نے پیشے کے طور پر اختیار کیا ہوگا اہل صنعت و تجارت میں سے ہر شخص سے اس کی صنعت اور تجارت کے مطابق جزیہ وصول کیا جائے گا یعنی خوش حال سے اڑتالیس درہم اور متوسط سے چوبیس درہم جس شخص کی صنعت اڑتالیس درہم کی متحمل ہوگی اس سے اڑتالیس درہم اور جس کی چوبیس درہم کی متحمل ہوگی اس سے چوبیس درہم وصول کئے جائیں گے جو شخص اپنے ہاتھ سے کام رتا ہوگا مثلاً درزی، رنگریز، قصاب، اور موچی نیز ان جیسے دوسرے پیشہ ور لوگ ان میں سے ہر ایک سے بارہ درہم لئے جائیں گے۔ امام ابو یوسف نے ملکیت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ صنعت و تجارت کا اعتبار کیا جس طرح لوگ تنگدست اور مالدار کے لئے عادۃً ان ہی باتوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ علی بن موسیٰ القمی نے ہمارے اصحاب کی طرف اپنے اس قول کی نسبت کیے بغیر یہ کہا ہے کہ پہلا طبقہ وہ ہے جس کا تعلق صنعت و حرفت سے ہے لیکن اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس پر مسلمانوں کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یہ بدحال قسم کے کاریگروں کا طبقہ ہے جس شخص کے پاس دو سو دوہم سے کم ہوگا اس کا شمار اس طبقے میں ہوگا۔ علی بن موسیٰ نے مزید کہا ہے کہ جس شخص کے پاس دو سو سے لے کر چار ہزار درہم تک ہوں گے اس کا شمار دوسرے طبقے میں ہوگا۔ اس لئے کہ جس شخص کے پاس دو سو درہم ہوتے ہیں وہ غنی کہلاتا ہے اور مسلمان ہونے کی صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اس لئے ایسا شخص فقراء کے طبقے سے خارج ہوجائے گا۔ علی بن موسیٰ کا کہنا ہے کہ ہم نے چار ہزار درہم تک کا جو اعتبار کیا ہے وہ حضرت علی ؓ اور حضرت عمر ؓ کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ ” چار ہزار یا اس سے کم کی رقم نفقہ یعنی اخراجات کی رقم ہے اور اس سے زائد رقم مال کثیر ہے “ انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو شخص دو سو سے لے کر دس ہزار درہم تک کا مالک ہو اسے دوسرے طبقے میں شمار کرنا جائز ہے لیکن اس سے زائد رقم کا مالک تیسرے طبقے میں شمار ہوگا اس لئے کہ حماد بن سلمہ نے طلحہ بن عبداللہ بن کریز سے، انہوں نے ابو الضیف سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من ترک عشرۃ الاف درہم جعلت صفائح بعذب بھا یو القیامۃ۔ جو شخص دس ہزار درہم چھوڑ جائے گا اس کے ان درہموں کو پتھر کی سلوں یا چوڑی تلوارروں کی شکل دے دی جائے گی اور قیامت کے دن اس کے ذریعہ اسے عذاب دیا جائے گا) عی بن موسیٰ القمی نے یہ جو کچھ کہا ہے اجتہاد کی بنا پر کہا ہے اور جس شخص کے غالب گمان میں یہ باتیں درست ہوں اس کے لئے ان باتوں کے کہنے کی گنجائش ہے۔ ” عن ید “ کا مفہوم قول باری (عن ید) کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ ” عن قھر “ یعنی دبائو اور مغلوبیت کی بنا پر گویا انہوں نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ قوت و طاقت اور غلبہ کا مرکز ہاتھ ہوتا ہے اس لئے اس قول باری کا مفہوم یہ ہوگا کہ اہل کتاب یہ جزیہ ان پر تمہارے غلبہ اور تسلط نیز دبائو کی بنا پر ادا کریں گے۔ ایک قول ہے کہ (عن ید) سے کافر کا ہاتھ مراد ہے۔ ہاتھ کا ذکر اس لئے ہواتا کہ جزیہ کی ادائیگی کی حالت اور غصہ کی حالت کے درمیان فرق کردیا جائے۔ اس لئے کہ ذمی جب جزیہ ادا کرتا ہے تو وہ بخوشی اپنے ہاتھوں سے اس کی ادائیگی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی جان اور اپنا خون محفوظ کرلیتا ہے۔ گویا یوں ارشاد ہوا۔ ” وہ جزیہ ادا کر درآنحالیکہ وہ اس کی ادائیگی پر رضامند اور خوش ہو “۔ قول باری (عن ید) میں عن نعمۃ کے معنی کا بھی احتمال ہے۔ اس بنا پر عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی۔ حتیٰ یعطوا الجزیۃ عن اعترف منھم بالنعمۃ فیھا علیھم بقبولھا منھم “ (حتیٰ کہ وہ اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے جزیہ ادا کردیں جو ان سے جزیہ قبول کرکے انہیں عطا کی گئی ہے) ۔ ایک قول کے مطابق (عن ید) کے معنی ’ عن نقد ‘ کے ہیں یعنی نقد کی صورت میں جس طرح نقد سودے کو عربی زبان میں ’ یداً بید “ کہاجاتا ہے یعنی ہاتھوں ہاتھ سودا۔ ابو عبیدہ معمر بن المثنیٰ کا قول ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی قاہر یعنی تسلط حاصل کرلینے والے شخص کی اطاعت بطیب خاطر یا اس کے دبائو میں آکر اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز دے کر کرے اس پر یہ فقرہ صادق آئے گا کہ ” احطاہ عن ید “ ابو عبیدہ کا قول ہے کہ صاغر ذلیل و غقیر کو کہتے ہیں قول باری (وھم صاغرون) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یمشون بھا ملبین (لبیک کہتے ہوئے وہ یہ جزیہ لے کر آئیں) حضرت سلمان فارسی ؓ کا قول ہے کہ ” مذمومین غری محمودین “ (قابل مذمت اور ناقابل تعریف بن کر) ایک قول کے مطابق جزیہ کی ادائیگی ان کے لئے اس بنا پر ذلت کا سامان ہے کہ یہ ان پر لازم کردی جاتی ہے ان سے اس کی وصولی کی جاتی ہے لیکن انہیں اس پر کوئی ثواب یا جزا نہیں دی جاتی۔ عکرمہ کا قول ہے کہ ذلت کی وجہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرنے والا کھڑا ہوتا ہے اور وصول کرنے والا بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک قول ہے کہ صنعار فرمانبرداری کو کہتے ہیں اس سے وہ ذلت مراد لینا بھی جائز ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر تھوپ دی تھی۔ چناچہ ارشاد ہے (ضربت علیھم الذلۃ اینما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس۔ یہ جہاں بھی پائے گے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسان کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے) جس سے مراد وہ ذمہ ہے جو اللہ نے ان کے لئے اٹھایا ہے اور ان کے متعلق مسلمانوں کو جس کا حکم دیا ہے۔ عبدالکریم الجزری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب نبطیوں (ایک عجمی قوم جو عراق میں دجلہ و فرات کے دوآبہ کے درمیان آباد تھی سے جزیہ وصول کیا جائے تو ان کے ساتھ اس معاملے میں پوری سختی کی جائے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں سعید بن المسیب کی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہیں سزا دی جائے یا ان کی استطاعت سے بڑھ کر ان پر بوجھ ڈالا جائے بلکہ یہ مراد ہے انہیں فرمانبرداری پر مجبور کرکے حقیر بنادیا جائے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی۔ انہیں اسحاق بن الحسن نے، انہیں ابو حذیفہ نے، انہیں سفیان نے، انہیں سہیل نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا لقیتم المشرکین فی الطریق فلاتبدوھم بالسلام راضطروھم الی اضیقہ، جب راستے میں تم مشرکین کو دیکھو تو انہیں سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور انہیں راستہ کی کشادہ جگہ سے تنگ جگہ کی طرف ہف جانے پر مجبور کردو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں مطیر نے، انہیں یوسف الصنعار نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے سہیل سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاتصافحوا الیھود والنصاریٰ یہودیوں اور عیسائیوں سے مصافحہ نہ کرو) یہ ذلت کی وہ تمام صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے سر ان کے کفر کے سبب تھوپ دی ہیں۔ یہودو نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت قول باری ہے (یایھا الذین اٰمنوا لاتتخذوا بطانۃ من دونکم۔ اے ایمان لانے والو ! اپنے آدمیوں کے سوا کسی کو اپنا راز دانہ نہ بنائو) نیز فرمایا (لا تتخذو الیھود والنصاریٰ اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ یہودو نصاریٰ کو اپنا دلی دوست نہ بنائو، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ دوستی کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا) ان آیات میں کافروں سے دوستی گانٹھنے اور ان کی تعظیم و تکریم سے منع کیا گیا ہے بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کی اہانت اور تذلیل کی جائے۔ مسلمانوں کے معاملات میں ان سے مدد لینے کی بھی ممانعت کردی گئی ہے اس لئے کہ مسلمانوں کے معاملات میں دخیل ہوکر انہیں انتظامی طور پر عزت اور بالادستی حاصل ہوجائے گی۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو تحریری طور پر یہ ہدایت کی تھی کہ وہ تحریری کاموں میں کسی مشرک سے مدد نہ لیں۔ اس موقع پر آپ نے اس آیت کا بھی حوالہ دیا تھا (لاتتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم حبالاً ) نیز فرمایا تھا کہ اللہ تعایلٰ نے انہیں ذلیل کردیا ہے اب انہیں عزت کے مقام کی طرف واپس نہ لوٹائو۔ قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون) ان کے قتل کے وجوب کا مقتضی ہے یہاں تک کہ انہیں دباکر اور ذلیل کرکے ان سے جزیہ وصول کیا جائے۔ اس اقتضاء کی روشنی میں یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ اگر یہ لوگ مسلمانوں کے علاقوں میں حکومتوں پر تسلط جمالیں اور ان کے معاملات کے دردبست پر قابض ہوجائیں تو اس صورت میں یہ ذمی بنے رہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ہم پر ذمہ داری عائد ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان کی اور ان کی جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اس صورت میں ڈالی ہے کہ یہ جزیہ دیں اور ذلی ہوکر رہیں۔ اس لے ان میں سے جو شخص بھی مسلمانوں پر غاصبانہ تسلط جمالے گا اور ٹیکس وصول کرنا اور ظلم و ستم کرنا شروع کردے گا خواہ اسے سلطان نے اس کام پر لگایا ہو یا وہ از خود یہ سب کچھ کرتا ہو۔ اسے قتل کردینا واجب ہوگا۔ بادشاہ کے عیسائی کارندے مسلمانوں پر ظالمانہ ٹیکس لگائیں تو وہ واجب القتل ہیں یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے بادشاہ کے ایسے عیسائی کا رندے جو اس کی طرف سے انتظامی اسامیوں پر مقرر کئے جاتے ہیں، پھر وہ اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں اور ٹیکس وصول کرتے ہیں، یہ ذمی نہیں رہتے، ان کے خون کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ان کا خون بہانا مباح ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ان کے ذریعے حاصل شدہ ٹیکس کی رقمیں ایسے شخص کے خزانے میں پہنچ جاتی ہیں جو اسلام کا دعوے دار ہوتا ہے اور کمین گاہ میں بیٹھ کر لوگوں کا مال لوٹتا ہے۔ ایسے کارندوں اور حاکموں کا خون بہا دینا جائز ہے اس لئے کہ ان کی حیثیت رہزنوں جیسی ہے۔ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص سے اس کا مال چھیننے کی کوشش کرے تو وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ حضور ﷺ کا بھی یہی فرمان ہے (من طلب مالہ فقاتل فقتل فھو شھید۔ جس شخص کا مال کسی نے چھیننے کی کوشش کی اور وہ اس کی حفاظت کی خاطر اس کا مقابلہ کرتا ہوا قتل ہوجائے تو وہ شہید ہوگا) ایک اور روایت میں ہے (من قتل دون مالہ فھو شھید۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا وا مارا جائے وہ شہید ہوگا) نیز فرمایا (ومن قتل دون اھلہ فھو شھید ومن قتل دن دمہ فھو شھید۔ اور جو شخص اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوا ہلاک ہوجائے وہ شہید ہوگا اور جو شخص اپنی جان کی حفاظت میں جان گنوا بیٹھے وہ بھی شہید ہوگا) یہ تو اس شخص کا حکم ہے جو کلمہ گو ہونے کے باوجود کسی شخص کے مال پر غاصبانہ قبضے کی کوشش کرے اگر ایسا شخص ذمی ہو تو وہ دو وجوہ سے قتل کا سزا وار قرار پائے گا۔ ایک تو یہ کہ ظاہر آیت اس کے وجوب قتل کا مقتضی ہے اور دوسری یہ کہ اس نے ایک مسلمان کے مال کو ظلماً ہتھیانے کی کوشش کی تھیں۔ جزیہ کے وجوب کا وقت قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ) تا قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھو صاغرون) اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ قتال کو واجب کردیا اور جزیہ کی ادائیگی کے وقت کو ان سے رفع قتال کی غایت مقرر کی۔ اس لئے کہ حرف حتیٰ غایت کے معنی ادا کرتا ہے یہی اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں اور اس کے ظاہر سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (ولا تقربوھن حتیٰ یطھرن جب تک یہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جائو) میں ان سے قربت کی اباحت پر پابندی لگادی گئی ہے یہاں تک کہ حیض کا انقطاع ہوجائے اور طہر وجود میں آجائے۔ اسی طرح کہنے والے کے اس قول سے کہ ” لاتعطزیدا شیئاً حتیٰ یدخل الدار (زید کو اس وقت تک کوئی چیز نہ دو جب تک وہ گھر میں داخل نہ ہوجائے) یہی مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ جب تک وہ گھر میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک اسے کوئی چیز دینے کی ممانعت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت اہل کتاب کے ساتھ قتال کی موجب ہے اور یہ حکم جزیہ کی ادائیگی پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقد ذمہ کے ساتھ جزیہ واجب ہوجاتا ہے۔ ابو الحسن کرخی آیت کی تفسیر میں یہی بات کہتے تھے۔ ابن سماعہ نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے کہ ذمی سے اس وقت تک جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا جب تک سال داخل نہ ہوجائے او اس کے دو ماہ نہ گزر جائیں، دو ماہ گزرجانے کے بعد اس سے دو ماہ کا جزیہ وصول کرلیا جائے گا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دوسرے الفاظ میں جزیہ کی وصولی میں وہی طریق کار اختیار کیا جائے گا جو ٹکس کی وصولی میں کیا جاتا ہے کہ جب دو ماہ گزرجاتے ہیں تو اس سے دو ماہ کا ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ضریبہ یعنی ٹیکس سے مراد اجرت ہے جو اجارہ کی صورتوں میں مقرر کی جاتی ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ سال کے دخول پر اس سے پورا جزیہ نہیں لیا جائے گا یہاں تک کہ سال کا اختتام ہوجائے لیکن سال کے دوران جزیہ کی وصولی میں یہ طریق کار اختیار کیا جائے گا ۔ یعنی ہر دو ماہ بعد اس کے بقدر جزیہ وصول کرلیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف نے دو ماہ کا ذکر جزیہ کی پوری وصولی کے لئے کیا ہے۔ اس پر جزیہ کا وجوب تو اس وقت سے ہوجاتا ہے جب ہم اسے عقد ذمہ پر برقرار کردیتے ہیں جیسا کہ ظاہر آیت اسی مفہوم کو متضمن ہے۔ ابن سماعہ نے امام ایو یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ذمی سے اس کے سرکا خراج یعنی جزیہ سال کے دوران وصول کیا جائے گا جب تک سال کے دوران اس کا وجود رہے گا۔ لیکن جب سال گزرجائے گا تو اس سے یہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے عقد ذمہ کے انعقاد کے ساتھ ہی جزیہ کو واجب قرار دیا ہے سال کے بعض حصے تک اس کی تاخیر صرف واجب مقدار کی پوری وصولی کے لئے ہے اور اس کے ذریعے وصولی کا دائرہ ذرا وسیع کردیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امام ابوحنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ جب سال گزر جائے گا تو اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے کہ دوسرے سال کے دخول کے ساتھ اس پر دوسرا جزیہ واجب ہوجائے گا۔ جب اس پر جزیہ کی دو قسمیں اکٹھی ہوجائیں گی تو ایک جزیہ ساقط ہوجائے گا۔ تاہم امام ابو یوسف اور امام محمد سے منقول ہے کہ جزیہ کی دو رقموں کا اکٹھا ہوجانا ایک جزیہ کو ساقط نہیں کرے گا۔ امام ابوحنیفہ ؓ کے قول کی توجیہ یہ ہے کہ جزیہ کا وجوب سزا کے طور پر ہوتا ہے اس سزا کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جزیہ دینے والے اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں جس کی بنا پر وہ اس بات کے سزاوار ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن جزیہ کے وجوب کی بنا پر ان سے جنگ نہیں کی جاتی۔ جزیہ وصول کرنے کا حق امام کو ہوتا ہے اس لئے جزیہ حدود کے مشابہ ہوگیا کیونکہ حدود کا وجوب بھی سزا کے طور پر ہوتا ہے اور انہیں نافذ کرنا امام کا حق ہوتا ہے۔ جب ایک ہی قسم کے جرم کی بنا پر کئی حدود جمع ہوجائیں تو پھر صرف ایک ہی حد جاری کرنے پر اقتصار کرلیاجاتا ہے مثلاً ایک شخص کئی دفعہ زنا کرتا ہے یا کئی دفعہ چوری کرتا ہے پھر اس کا معاملہ امام المسلمین کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کی تمام چوریوں کے بدلے ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ یہی زنا کی صورت میں بھی ہوتا ہے جزیہ بھی اسی طرح سزا کے طور پر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کا معاملہ حدود کی بہ نسبت زیادہ تنصیف اور زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے اصحاب کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ذمی مسلمان ہوجائے تو جزیہ ساقط ہوجاتا ہے لیکن واجب شدہ حد مسلمان ہوجانے پر ساقط نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب جزیہ ایک قرض ہوتا ہے اور اس مال پر مسلمانوں کا حق ہوتا ہے تو پھر جزیہ کی دو رقموں کا اکٹھا ہوجانا ایک جزیہ کو ساقط نہیں کرے گا جس طرح ایک شخص پر کئی قرضوں کا اکٹھا ہوجانا یا اراضی پر خراج کی کئی رقموں کا اکٹھا ہوجانا ان میں سے کسی قرض یا خراج کی رقم کے سقوط کا سبب نہیں بن سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اراضی کا خراج سزا یا ذلت کے طور پر واجب نہیں ہوتا اس کی دلیل یہ ہے کہ خراج مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا ہے جبکہ جزیہ مسلمانوں سے وصول نہیں کیا جاتا۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے مماثل طائوس سے بھی ایک قول مروی ہے۔ ابن جریج نے سلیمان الاحول سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ جب کئی صدقات یعنی زکوٰۃ کا اجتماع ہوجائے تو جزیہ کی طرح پہلی زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ ذمی کے مسلمان ہونے پر عائد شدہ جزیہ کے بارے میں آراء اگر کسی ذمی پر جزیہ واجب ہوجائے اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوجائے تو آیا اس سے واجب شدہ جزیہ کی وصولی کی جائے گی یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وصولی نہیں کی جائے گی، امام مالک اور عبید اللہ بن الحسن کا بھی یہی قول ہے۔ قاضی ابن شبہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر وہ سال کے کسی حصے میں مسلمان ہوجاے تو اتنے حصے کا جزیہ حسار کرکے وصول کرلیا جائے گا۔ اسلام لانا واجب شدہ جزیہ کو ساقط کردیتا ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ) تا قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون) یہ آیت ہمارے قول کی صحت پر دو طرح سے دلالت کررہی ہے اول یہ کہ ایسے لوگوں سے جزیہ لینے کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ قتال ان کے کفر پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے واجب ہے اگر وہ جزیہ ادا نہ کریں لیکن جب ایسا شخص اسلام لے آئے تو اس کے ساتھ قتال واجب نہیں ہوگا اس لئے اس پر جزیہ بھی واجب نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ قول باری ہے (عن ید وھم صاغرون) اس میں ایسے لوگوں سے انہیں ذلیل اور رسوا کرنے کی خاطر جزیہ کی وصولی کا حکم دیا گیا ہے لیکن اسلام لے آنے کے بعد یہ بات ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اس ذلت اور رسوائی کی عدم موجودگی کی صورت میں ان سے جزیہ لینا کسی طرح ممکن نہیں ہے اور اگر ہم ان باتوں کی غیر موجودگی میں ان سے جزیہ لیں گے تو وہ جزیہ نہیں کہلائے گا اس لئے کہ جزیہ تو وہ ہوتا ہے جو ذلت و رسوائی کی بنا پر وصول کیا جاتا ہے۔ سفیان ثوری نے قابوس بن ابی ظبیان سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لیس علی مسلم جزیۃ کسی مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوتا) آپ نے مسلمان سے جزیہ کی وصولی کی نفی فرمادی۔ آپ نے حالت کفر میں واجب ہونے والے جزیہ اور اسلام لانے کے بعد واجب نہ ہونے والے جزیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس حدیث کے ظاہر معنی کے رو سے اسلام لانے کے بعد ایسے شخص سے جزیہ کا استقاط واجب ہوگیا۔ اس کے سقوط پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جزیہ اور جزاء یعنی سزا دونوں ہم معنی الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ ایسے شخص کے کفر پر قائم رہنے کی سزا جس کے ساتھ قتال واجب ہوتا ہے۔ اس لئے جب ایسا شخص مسلمان ہوجائے گا تو اسلام لانے کی وجہ سے اس سے کفر کی بنا پر ملنے والی سزا کا سقوط ہوجائے گا۔ اس لئے کہ توبہ کرلینے والے کو ایسی حالت میں سزا دینا جائز نہیں ہوتا جب توبہ کرلینے کے بعد اسے زندگی کی مہلت مل گئی ہو اور اس کے مکلف ہونے کی صورت باقی رہ گئی ہو۔ اسی امر کے اعتبار کی بنا پر ہمارے اصحاب نے موت کی صورت میں ذمی سے جزیہ ساقط کردیا ہے اس لئے کہ ذمی کی موت کے بعد ذلت و رسوائی کے طور پر اس سے جزیہ لینے کا موقعہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے اس کی موت کے بعد اس سے لی ہوئی چیز جزیہ نہیں کہلائے گی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی مسلمان پر اس کے مال اور مویشیوں میں زکوٰۃ واجب ہوجائے اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفات پاجائے تو زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی اور امام المسلمین اس زکوٰۃ کی وصولی نہیں کرے گا اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے وجوب کا سارا عمل اصلاً عبادت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور موت کے ساتھ عباد ت کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ جس شخص پر قاضی کی طرف سے اس کی بیوی کا نان و نفقہ واجب کردیا جائے اور پھر اس کی یا اس کی بیوی کی وفات ہوجائے تو واجب شدہ رقم ساقط ہوجائے گی اس لئے کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک نفقہ کا وجوب تعلق زن وشو کے وجوب کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ یہ نفقہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ موت کے بعد تعلق زن وشو باقی نہیں رہتا، اس لئے ہمارے اصحاب نے اسی علت کے پیش نظر نفقہ کو ساقط کردیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حدود کا وجوب عقوبت اور سزا کے طور پر ہوتا ہے اور توبہ حدود کو ساقط نہیں کرتی۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا ذمی مسلمان ہوجائے جس نے کفر کی حالت میں زنا یا چوری کا ارتکاب کیا ہو تو اس کا مسلمان ہوجانا نیز اس کا توبہ کرلینا اس پر واجب شدہ حد کے اسقاط کا سبب نہیں بن سکتا۔ اگرچہ حد کا وجوب اصلاً سزا کے طور پر ہوا تھا۔ اور توبہ کرلینے والا شخص اس فعل پر سزا کا مستحق نہیں ہوتا جس سے اس نے درست طریقے سے توبہ کرلی ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس پر سزا کے طور پر جو حد واجب ہوئی تھی وہ تو توبہ کی بنا پر ساقط ہوگئی۔ توبہ کے بعد ہم اس پر جو حد واجب کرتے ہیں یہ وہ حد نہیں ہے جس کا وہ سزا کے طور پر سزاوار ہوا تھا بلکہ یہ وہ حد ہے جو اس پر ابتلاء اور آزمائش کے طور پر واجب ہوئی ہے۔ اس کا وجوب اس دلالت کی بنا پر ہوا ہے جو اس سلسلے میں قائم ہوئی ہے اور جو اس دلالت سے مختلف ہے جو پہلی حد کو سزا کے طور پ واجب کرتی تھی۔ اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد اس سے جزیہ اور عقوبت کے سوا کسی اور وجہ کی بنا پر مال کی وصولی کو واجب کرتی ہو تو ہم اسے تسلیم کرلیں گے اور اس کے ایجاب سے انکار نہیں کریں گے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہوگی کہ اس سے وصول کیا ہوا یہ مال جزیہ نہیں کہلائے گا اس لئے کہ جزیہ کا اسم سزا اور عقوبت کے معنی کو متضمن ہے جبکہ معترض کا دعویٰ یہ ہے کہ ایسے ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد اس سے جزیہ ہی وصول کیا جاتا ہے۔ اگر معترض اس امر کا اعتراف کرلیتا ہے کہ ایسے ذمی سے لیا ہوا مال جزیہ کے سوا کوئی اور چیز ہے نیز جزیہ اس پر واجب ہوا تھا جو اب ساقط ہوگیا اور اس پر جزیہ کے سوا کوئی اور مال واجب ہوگیا تو معترض ہی وہ واحد شخص ہوگا جو ہمیں کسی مسلمان پر ایسے مال کے ایجاب کی خبر دے گا جو اس پر بلا کسی ایسے سبب کے واجب ہوگیا ہو جس ک ایجاب کا وہ سرے سے مقتضی نہ ہو۔ معترض کی یہ بات ایسی ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔ المسعودی نے محمد بن عبداللہ الثقفی سے روایت کی ہے کہ ایک دہقان (گائوں کا چودھری) مسلمان ہوگیا اور حضرت علی ؓ کے سامنے پیش ہوگیا۔ آپ نے اس سے یہ فرمایا کہ اب تم پر جزیہ عائد نہیں ہوگا۔ رہی تمہاری زمین تو وہ ہماری ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو گے تو اس زمین کے ہم زیادہ حق دار ہوں گے۔ معمر نے ایوب سے اور انہوں نے محمد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوگیا اس سے خراج یعنی جزیہ کا مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تم نے اسلام کے ذریعے جزیہ کی ادائیگی سے پناہ حاصل کی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسلام لے آیا ہوں تو مجھے اسلام میں پناہ ملنی چاہیے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” بخدا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، اسلام لانے والے کے لئے اسلام میں پناہ موجود ہے۔ “ پھر آپ نے اس سے جزیہ ہٹالیا۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عمال کو یہ تحریری حکم نامہ بھیجا تھا کہ جو شخص ہماری طرح کلمہ طیبہ پڑھ لے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے اور ختنہ کرائے، اس سے جزیہ وصول نہ کرو۔ ان حضرات سلف نے اسلام لانے سے قبل واجب شدہ جزیہ اور اسلام لانے کے بعد ہر مسلمان سے جزیہ کی نفی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ آل مروان کا ذمیو پر ظلم آل مروان ایک ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس سے جزیہ وصول کرتے تھے۔ انہوں نے اس کی تاویل یہ کی تھی جزیہ کی حیثیت غلام پر لگنے والے ٹیکس کی طرح ہے اور غلام کے مسلمان ہوجانے پر اس پر عائد شدہ ٹیکس معاف نہیں ہوتا اسی طرح ذمی پر اس کے مسلمان ہوجانے کے بعد عائد شدہ جزیہ معاف نہیں ہوگا۔ آل مروان نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے اور اسلام کے ایک ایک بندھن کو جس طرح توڑا تھا اس کے پہلو بہ پہلوان کا یہ بھی ایک عظیم جرم تھا جس کا ارتکاب انہوں نے مسلمان ہوجانے والے ذمیوں سے جزیہ وصول کرنے کی صورت میں کیا تھا حتیٰ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز تخت خلافت پر متمکن ہوگئے۔ آپ نے عراق میں اپنے عامل اور صوبہ دار عبدالحمید بن عبدالرحمن کو یہ حکمنامہ تحریر کیا۔ ” اما بعد، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو داعی بناکر بھیجا تھا۔ جزیہ وصول کرنے والا بناکر نہیں بھیجا تھا۔ تمہیں میرا یہ خط جس وقت مل جائے اس کے فوراً بعد ان تمام ذمیوں سے جزئہ ہٹالو جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ “ پھر جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے مسلمانوں پر دوبارہ جزیہ عائد کردیا، اس زمانے کے فقہاء اور قراء نے عبدالملک بن مروان اور حجاج کے خلاف جنگ کے جواز کا جو فتویٰ دیا تھا اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہی تھا کہ یہ حکمران مسلمانوں سے جزیہ وصول کرتیت تھے پھر یہی چیز ان کی حکومت کے زوال اور ان کی نعمت چھن جانے کا دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب بن گئی۔ عبداللہ بن صالح نے روایت بیان کی ہے، انہیں حرملہ بن عمران نے یزید بن ابی حبیب سے کہ اس امت پر حضور ﷺ کی وفات کے بعد تین عظیم ترین افتادیں آئیں۔ ایک تو مسلمانوں کے ہاتھوں حضرت عثمان ؓ کا قتل، دوم مسلمانوں کے ہاتھوں کعبہ مکرمہ کو آگ لگ جانے کا سانحہ اور سوم مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں مسلمانوں سے جزیہ کی وصولی ۔ آل مروان کا یہ کہنا کہ جزیہ کی حیثیت غلام پر عائد شدہ ٹیکس جیسی ہے، تو ان کی جہالت کی یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اس لئے کہ وہ اسلام کے ان امور سے بھی جاہل تھے جو اس جزیہ کے مسئلے سے کہیں زیادہ اہم تھے۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ذمیوں کی حیثیت غلاموں جیسی نہیں تھی، اگر ذمی غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی بنا پر ان کی غلامی زائل نہ ہوتی اس لئے کہ غلام کا مسلمان ہوجانا اس سے غلامی کو دور نہیں کرتا۔ جبکہ جزیہ ایک سزا اور عقوبت ہے جو انہیں کفر پر اڑے رہنے کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن جب یہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں جزیہ کی وصولی کی صورت میں یہ سزا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عیسائی غلام سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا۔ اگر ذمی غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی بنا پر ان کی غلامی زائل نہ ہوتی اس لئے کہ غلام کا مسلمان ہوجانا اس سے غلامی کو دور نہیں کرتا۔ جبکہ جزیہ ایک سزا اور عقوبت ہے جو انہیں کفر پر اڑے رہنے کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن جب یہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں جزیہ کی وصولی کی صورت میں یہ سزا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عیسائی غلام سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا۔ اگر ذمی غلام ہوتے تو ان سے ہرگز جزیہ وصول نہ کیا جاتا۔ آیا اراضی پر عائد ہونے والا خراج جزیہ ہے ؟ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اراضی پر عائد شدہ خراج کے متعلق اہل علم کا یہ اختلاف ہے کہ آیا جزیہ کی طرح یہ بھی صنعار یعنی ذلت اور رسوائی پر مبنی ہے اور آیا ایک مسلمان کے لئے خراجی زمین کی ملکیت حاصل کرنا مکروہ ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور تابعین کی ایک جماعت سے اس کی کراہت مروی ہے۔ ان حضرات نے خراج کو جزیہ کی آیت میں داخل سمجھا ہے۔ حسن بن حی اور شریک کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جزیہ انسانوں کا خراج ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے خراجی زمین کی ملکیت میں کوئی کراہت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں صنعار یعنی ذلت کا مفہوم شامل ہے۔ ہمارے اصحاب اور قاضی ابن ابی لیلیٰ کا یہی قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی ایک روایت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔ شعبہ نے اعمش سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے سمر بن عطیہ سے ، انہوں نے قبیلہ طے کے ایک شخص سے ، اس نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاتتخذوا الضیعۃ قترغبوا فی الدنیا۔ زرعی زمینوں کی جائیدادیں نہ بنائو ورنہ پھر تمہیں دنیا سے رغبت پیدا ہوجائے گی) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہا کرتے تھے کہ ” راذان کے علاقے میں جو زمین ہے وہ راذان میں ہے اور مدینہ میں جو ہے وہ مدینہ میں ہے۔ “ یعنی رازان میں بھی آپ کی زمین تھی اور مدینہ منورہ میں بھی، یہ تو سب کو معلوم ہے کہ رازان کی زمین خراجی زمین تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خراجی زمین کی ملکیت کو مکروہ نہیں سمجھا۔ حضرت عمر ؓ سے نرشاہی کے علاقے میں آباد ایک چودھرائن کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوگئی تو آپ نے اپنے عامل کو لکھا کہ اگر وہ اپنی زمینوں پر حسب سابق رہنا چاہے گی تو ہم اس سے خراج وصول کریں گے۔ ایک روایت کے مطابق ابن الرفیل مسلمان ہوگیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے بھی یہی بات کہی تھی۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ایک زمیندار مسلمان ہوگیا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ اگر تم اپنی زمین پر حسب سابق رہنا چاہو گے تو ہم تم سے خراج وصول کریں گے اور اگر نہیں تو پھر ہم اس زمین کے زیادہ مستحق ہوں گے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت سعید بن زید سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ سہیل بن ابی صالح نے اپنے واحد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (صنعت العراق قفیرھا ودرھمھا دمنعت الشام مداھا ودینارھا و منعت مصراز ربھا وعدتم کما بدأتم۔ اہل عراق نے ان پر واجب ہونے والا حق یعنی قفیز (غلہ ناپنے کا آلہ) اور درہم کی ادائیگی روک دی اہل شام نے مد (غلہ ناپنے کا پیمانہ) اور دینار کی ادائیگی روک دی۔ اور اہل مصر نے اپنے اروب (ایک پیمانہ جس میں چوبیس صاع غلہ آتا ہے) کی ادائیگی روک دی اور اللہ کا حق ادا نہ کرنے کی طرف تم اسی طرح لوٹ آئے ہو جس طرح تم نے ابتدا کی تھی) حضور ﷺ نے یہ فقرات تین دفعہ ارشاد فرمائے، حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میرا گوشت اور میرا خون اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ ﷺ نے یہی کچھ ارشاد فرمایا۔ یہ روایت دو وجوہ سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کا خراج ذلت اور رسوائی نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے مسلمانوں کے لئے ایسی خراجی زمین کی ملکیت کو ناپسند نہیں فرمایا جس پر ایک قفیز مع ایک درہم خراج عائد کیا جاتا تھا اگر اس کی ملکیت مکروہ ہوتی تو آپ اس کا ضرور ذکر کردیتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس بات کی اطلاع دے دی کہ لوگ اللہ کا وہ حق ادا نہیں کریں گے جو ان پر اسلام کی بنا پر فرض ہوا ہے۔ آپ کے ارشاد عدتم کما بداتم کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی اللہ کا حق ادا نہ کرنے کی طرف تم اسی طرح لوٹ آئے ہو جس طرح تم نے ابتدا کی تھی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ خراج بھی ان حقوق میں شامل ہے جو اللہ کے لئے لازم ہیں جس طرح زکوٰۃ اور کفارہ وغیرہ کی صورتیں اللہ کے حقوق میں شامل ہیں اس حق کا لزوم ذلت اور رسوائی کی بنا پر نہیں ہے۔ نیز اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اسلام لے آنا سروں کا جز یہ یعنی انسانوں سے تعلق رکھنے والے جزیے کو ساقط کردیتا ہے لیکن زمین کے جزیے یعنی خراج کو ساقط نہیں کرتا۔ اگر خراج رسوائی کی علامت ہوتا تو اس کے مالک کا مسلمان ہوجانا اسے ساقط کردیتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اراضی کا خراج فی ہوتا ہے اور جزیہ بھی فی ہوتا ہے۔ جب جزیہ ذلت اور رسوائی ہے تو اس سے ضروری ہوگیا کہ خراج کو بھی ذلت اور رسوائی شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ جو مال فی ہوتا ہے اس کا ایک حصہ یعنی پانچ میں سے چار حصے جنگ میں شریک مجاہدین کو دے دیا جاتا ہے اور ایک حصہ یعنی پانچواں حصہ فقراء اور مساکین کے لئے مختص کردیا جاتا ہے۔ معترض نے جو نکتہ اٹھایا ہے اس کا تعلق اس مصرف پر گفتگو سے ہے جس میں فی کو صرف کیا جاتا ہے لیکن اس سے یہ ضروری نہیں کہ خراج ذلت اور رسوائی کی علامت بن جائے اس لئے کہ صغار یاذلت اس فے میں ہوتی ہے جس کی ابتدا وہ شخص کرتا ہے یعنی ذمی جس پر فی واجب ہوتا ہے لیکن اگر زمین پر کوئی فی واجب ہوجائے اور پھر مسلمان اس زمین کا مالک بن جائے تو اس کی ملکیت اس زمین پر عائد شدہ حق کو زائل نہیں کرتی۔ اس لئے کہ اس حق کا وجوب اس کی ملکیت میں آنے سے پہلے ہوچکا تھا۔ واجب ہونے وال یہ حق ایسا ہے کہ اس کا تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ جزیہ فی ہونے کی حیثیت سے ذلت کی علامت نہیں ہے بلکہ عقوبت اور سزا ہونے کی حیثیت سے رسوائی کی علامت ہے جبکہ زمین کا خراج عقوبت کے طور پر لازم نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بچے اور دیوانے کی زمین پر خراج عائد ہوجاتا ہے لیکن ان دونوں سے جزیہ وصول نہی کیا جاتا اس لئے کہ جزیہ عقوبت اور سزا ہے جبکہ زمین پر عائد ہونے والا خراج سزا نہیں ہے۔ ایک اعتراض کا جواب اگر کو یء ملحدیہ اعتراض کرے کہ کافروں کو مسلمان بنانے کی بجائے جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رہنے دینا کس طرح جائز ہوگیا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان سے جزیہ کی وصولی اس بات کی علامت نہیں ہے کہ ہم ان کی اس کفر والی حالت پر خوش ہیں یا ہماری طرف سے ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے اور ہم نے ان عقائد کو درست سمجھ لیا ہے بلکہ جزیہ تو ایک سزا ہے جو انہیں ان کے کفر کی بنا پر مل رہی ہے۔ جزیہ لے کر انہیں ان کے کفر پر قائم رہنے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم جزیہ لیے بغیر انہیں اس پر قائم رہنے دیتے۔ اس لئے کہ اتنی بڑی تعداد پر قتل کا حکم عائد کردینا عقل کے خلاف ہے۔ اگر قتل کردینے کی بات درست ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ ایک بھی کافر کو ایک ساعت کے لئے زندہ رہنے نہ دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی مقرر کردہ سزا (جزیہ کی ادائیگی) بھگتنے کے لئے زندہ رکھا ہے اور زندہ رکھ کر انہیں گویا کفر سے توبہ کرنے کی دعوت دی ہے نیز ایمان کی طرف مائل ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے تو اب جزیہ کے ذریعے انہیں مہلت دینے کا عمل عقلی طور پر متمنع نہیں ہوا۔ اس لئے کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایمان لے آئیں گے اور اگر ان میں سے بعض دوسرے ایمان نہیں لاتے تو ان کی نسل میں ایمان لانے والے پیدا ہوں گے۔ اس طرح جزیہ لے کر انہیں مہلت دینے کے عمل میں خود ان کا عظیم تر مفاد پوشیدہ تھا۔ دوسری طرف جزیہ کی رقم سے مسلمانوں کی معیشت سدھر جاتی اور نہیں خوشحالی نصیب ہوتی۔ اس لئے جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنا یا جزیہ لئے بغیر بھی انہیں قتل نہ کرنا اس بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کہ ہم ان کی کفر والی حالت سے خوش ہیں یا ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عقلی طور پر یہ بات بھی جائز ہے کہ جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنا یا جزیہ لئے بغیر بھی انہیں قتل نہ کرنا اس بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کہ ہم ان کی کفر والی حالت سے خوش ہیں یا ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عقلی طور پر یہ بات بھی جائز ہے کہ جزیہ لے کر انہیں مہلت دے دی جائے۔ اس مہلت میں کم از کم اتنی بات تو ضرور ہوتی ہے کہ ان کے کفر کی سزا کا ایک حصہ فوری طور پر انہیں اسی دنیا میں مل جاتا ہے اور یہ سزا وہ ذلت اور رسوائی ہے جو جزیہ ادا کرنے کی بنا پر انہیں اٹھانی پڑتی ہے۔
Top