Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
مَا لَكُمْ
: تمہیں کیا ہوا
اِذَا
: جب
قِيْلَ
: کہا جاتا ہے
لَكُمُ
: تمہیں
انْفِرُوْا
: کوچ کرو
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
اثَّاقَلْتُمْ
: تم گرے جاتے ہو
اِلَى
: طرف (پر)
الْاَرْضِ
: زمین
اَرَضِيْتُمْ
: کیا تم نے پسند کرلیا
بِالْحَيٰوةِ
: زندگی کو
الدُّنْيَا
: دنیا
مِنَ
: سے (مقابلہ)
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
فَمَا
: سو نہیں
مَتَاعُ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلٌ
: تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلنے اور جہاد کرنے کی فرضیت کا بیان قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لئے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے) تا قول باری (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیماً ویستبدل قوما غیرکم۔ تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں درد ناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا۔ جہاد فرض عین ہے یا کفایہ ؟ ظاہر آیت اس شخص پر بھی جہاد کے لئے اٹھ کھڑ ا ہونے کو واجب قرار دیتی ہے جسے اس کی دعوت نہ دی گئی ہو۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (انفروا خفافا وثقالا۔ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل) اللہ تعالیٰ نے نفیر یعنی جہاد کے لئے نکل کھڑے ہونے کو مطلقاً واجب کردیا اور اس میں بلائے جانے کی شرط نہیں لگائی۔ اس لئے ظاہر آیت ہر اس شخص پر جہاد کے وجوب کی مقتضی ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں ابو الیمان اور حجاج نے جریر بن عثمان سے، انہوں نے عبدالرحمن بن میسرہ اور ابن ابی ملال سے، انہوں نے ابو راشد الجرانی سے، وہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت مقداد بن الاسود ؓ سے اس وقت ہوئی جب آپ جہاد پر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، میںے عرض کیا کہ اللہ تعایلٰ کے ہاں آپ کا عذر قابل قبول ہے (یا شاید ابو راشد نے ان سے یہ کہا) جنگ پر نہ جانے میں اللہ کے نزدیک آپ کا عذر قابل قبول ہے یہ سن کر حضرت مقداد ؓ نے فرمایا : سورة برات ہمارے پاس یہ آیت لے کر آئی ہے (انفروا خفافاً وثقالاً ) ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے روایت بیان کی ہے انہوں نے ایوب سے، انہوں نے ابن سیرین سے کہ حضرت ابو ایوب انصاری حضور ﷺ کے ہمراہ معرکہ بدر میں شریک ہوئے تھے پھر ایک سال کے سوا کسی بھی غزوہ میں آپ پیچھے نہیں رہے۔ ایک جنگ میں ایک نوجوان شخص کو لشکر کا سالار مقرر کیا گیا آپ نے اس موقع پر یہ فرمایا : مجھے اس سے کیا غرض کہ کون شخص مجھ پر سالار بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (انفروا خفافاً وثقالاً ) اور میں تو اپنے آپ کو ہلکا یا بوجھل ضرور پاتا ہوں۔ یعنی میں بہرصورت جہاد کروں گا۔ ابو عبید نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے انہیں یزید نے حماد بن مسلمہ سے، انہوں نے علی بن زید سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ حضرت ابو طلحہ نے آیت (انفروا خفافاً وثقالاً ) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ ” میرے خیال میں اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو جہاد پر نکلنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہمارے جوانوں کو بھی اور بوڑھوں کو بھی، اس لئے جہاد پر جانے کے لئے میرے واسطے سامان تیار کرو۔ “ چناچہ ہم نے ان کے لئے سامان جہاد تیار کردیا۔ اور وہ فوج کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے۔ اسی غزوہ میں ا ن کی وفات ہوگئی۔ ہمیں ان کی تدفین کے لئے ساتویں دن ایک جریرہ ملا۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت سنائی کہ لوگوں نے تو کہا کہ ” ہمارے اندر ثقیل یعنی بوجھل لوگ بھی ہیں۔ ضرورت مند بھی ہیں۔ صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے بھی اور ایسے بھی ہیں جن کے ذاتی حالات پراگندہ ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (انفروا خفاف وثقالاً ) ۔ ان حضرات نے اس آیت کو نفیر یعنی از خود جہاد پر نکلنے کی فرضیت پر محمول کیا خواہ اس کے لئے باوا نہ بھی آیا ہو جبکہ پہلی آیت ظاہراً وبلاوا آنے پر جہاد کے لئے نکل پڑنے کی فرضیت کی مقتضی ہے اس آیت کی تاویل میں کئی وجہ بیان کئے گئے ہیں : پہلی تفسیر کے مطابق یہ بات غزوئہ تبوک کے موقع پر پیش آئی جب حضور ﷺ نے لوگوں کو جہاد پر نکلنے کے لئے کہا تھا۔ آپ نے جن لوگوں کو نکلنے کے لئے کہا تھا ان پر آپ کے ساتھ نکل پڑنا فرض تھا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبوا بانفسھم۔ مدینے کے باشندوں اور گردو نواح کے بدیوں کو ہرگز یہ زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بےپروا ہوکر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے) ان حضرات کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ کے سوا کسی اور کے ساتھ جہاد پر نکل پڑنے کا یہ حکم نہیں ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن محمد المروزی نے، انہیں علی بن الحسین نے اپنے والد سے، انہوں نے یزید النحوی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ آیت (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیماً ویستبدل قوماً غیرکم) نیز آیت (ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ) کو اس کے بعد آنے والی آیت (وما کان المومنون لینفروا کافۃ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے) نے منسوخ کردیا ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے کسی آیت کے اندر نسخ نہیں ہوا ان دونوں کا حکم ثابت اور باقی ہے۔ ان دونوں کے حکموں کا دو حالتوں کے ساتھ تعلق ہے۔ جب سرحد پر موجود مسلمانوں میں دشمن سے تنہا مقابلہ کی تاب نہ ہو اور وہ دوسرے مسلمانوں کو جہاد پر نکلنے کے لئے کہیں تو پھر تمام لوگوں پر جہاد کے لئے نکلنا فرض ہوجائے گا تاکہ سرحدات پر پہنچ کر دشمن کے خلاف معرکہ کارزار گرم کرسکیں اگرچہ سرحدات پر موجود لوگوں کی وجہ سے باقی ماندہ لوگوں کی کوئی خاص ضرورت نہ بھی پیش آئے پھر بھی ان پر اس کی فرضیت عائد رہے گی خواہ انہیں جہاد پر نکلنے کے لئے کہا گیا ہو یا نہ کہا گیا ہو۔ جب دشمن کے مقابلہ میں صف آرا لوگ جہاد کا فرض پورا کررہے ہوں اور انہیں اندرون ملک رہنے والے لوگوں سے مدد حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو تو اس صورت میں ایسے لوگوں پر جہاد فرض نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ ان میں سے کوئی جہاد پر اپنی مرضی سے جانا چاہے تو وہ فرض جہاد کا ادا کرنے والا شمار ہوگا اگرچہ شروع سے ہی جہاد میں حصہ نہ لینے کے سلسلے میں اس کا عذر قابل قبول ہوگا۔ اس لئے کہ جہاد فرض کفایہ ہے اگر ایک گروہ یہ فرض ادا کردے تو باقی ماندہ لوگوں سے ان کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں جریر نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا (لاھجرۃ ولکن جھدونیۃ وان اتنفرتم فانفروا اب ہجرت کا حکم باقی نہیں رہا لیکن جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور نیت کا ثواب ملتا رہے گا اور اگر تمہیں جہاد پر نکلنے کے لئے کہا جائے تو نکل کھڑے ہو) آپ نے جہاد کے لئے بلاوے پر نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ آپ کا یہ فرمان ظاہر قول باری (یآیھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثا قلتم الی الارض) سے مطابقت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس قول باری کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ضرورت کے وقت لوگوں کو جہاد پر نکلنے کی نفیر عام مل جائے اس لئے کہ سرحدات پر موجود لوگ دشمن کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو کافی سمجھتے ہوں اور انہیں دوسرے مسلمانوں سے مدد مانگنے کی ضرورت نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ عام طور پر لوگوں کو جہاد کے لئے نکلنے کو نہیں کہیں گے لیکن اگر امام المسلمین لوگوں کہ جہاد پر نکلنے کے لئے کہے جبکہ سرحدات پر موجود مسلمان اور فوج حالات پر قابو رکھنے کے لئے کافی ہوں لیکن امام المسلمین برسرپیکار دشمن پر آگے بڑھ کر حملہ کرنا اور دشمن کے علاقے کو روندنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں جن لوگوں کو وہ جہاد پر نکلنے کے لئے کہے گا ان پر نکل پڑنا لازم ہوگا۔ اس صورت میں فرضیت جہاد کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ابن شریر اور سفیان ثوری نیز دیگر حضرات سے منقول ہے کہ جہاد ایک نفلی عبادت ہے۔ یہ فرض نہیں ہے ان کا قول ہے کہ آیت (کتب علیکم القتال تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے) وجوب پر محمول نہیں ہے۔ بلکہ ندب اور استحباب پر محمول ہے جس طرح یہ قول باری استحباب پر محمول ہے (کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیۃ للوالدین والاقربین۔ تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لئے معرو طریقے سے وصیت کرے) حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے اگرچہ ان سے اس روایت کی صحت کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ روایت ہمیں جعفر بن محمد بن الحکم نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن ایمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں علی بن معید نے ابو ملیح الرتی سے، انہوں نے میمون بن مہران سے، وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے پاس موجود تھا۔ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے پاس آکر ان سے فرائض کے متعلق پوچھنے لگا۔ حضرت ابن عمر ؓ اتنی دور بیٹھے تھے جہاں سے وہ ان کی گفتگو سن سکتے تھے۔ سائل کے جواب میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے فرمایا : فرائض یہ ہیں، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ میمون کہتے ہیں کہ شاید حضرت ابن عمر ؓ کو اس آخری بات پر غصہ آگیا تھا۔ آپ نے فرمایا فرائض یہ ہیں، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ اد ا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔ “ راوی کا کہنا ہے کہ ابن عمر ؓ نے جہاد کا ذکر نہیں کیا۔ عطاء اور عمرو بن دینار سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن ایمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں حجاج نے ابن جریج سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ آیا غزو یعنی جہاد کرنا لوگوں پر واجب ہے ؟ تو انہوں نے اور عمرو بن دینار دونوں نے جواب دیا : ” ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے “ امام ابو حنیفہ، اما ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور دوسرے تمام فقہائے امصار کا قول ہے کہ جہاد قیامت تک کے لئے فرض ہے۔ البتہ یہ فرض کفایہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ ادا کرلیں تو باقیوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ان کے لئے اسے ترک کردینے کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔ ابو عبید نے ذکر کیا ہے کہ سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے کہ جہاد فرض نہیں ہے لیکن لوگوں کے لئے اس بھی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ترک جہاد پر ایکا کرلیں بلکہ ان میں سے بعض کی طرف سے اس کی ادائیگی دوسروں کے لئے بھی کفایت کرجائے گی۔ “ گر سفیان ثوری کا یہ قول ہے تو اس سے یہ بات علوم ہوئی کہ وہ بھی جہاد کے فرض کفایہ ہونے کے قائل ہیں اور یہ مسلک ہمارے اصحاب کے اس مسلک سے مطابقت رکھتا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ تمام مسلمان اس عقیدے کے حامل ہیں کہ جب سرحدات پر موجود مسلمانوں کو دشمن کے حملے کا خوف ہو اور ان میں اس کے مقابلہ کی سکت نہ ہو جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اپنی جان و مال اور اہل و عیال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوجائے تو ایسی صورت میں پوری امت پر یہ فرض عائد ہوجائے گا کہ ایسے لوگ فوری طورپر سرحدوں پر پہنچ جائیں جو مسلمانوں کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے بچالیں۔ امت کے اندر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے کہ کوئی مسلمان بھی اس صورت حال میں اس بات کے جواز کا قائل نہیں ہوگا کہ دشمن کے مقابلہ پر جانے کی بجائے مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ رہیں اور دشمن کو ان کا خون بہانے اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بناکر لے جانے کا موقع مل جائے۔ البتہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ جب دشمن کا مقابلہ کرنے والے موجود ہوں اور وہ دشمن کے خلاف صف آرا ہوں نیز انہیں دشمن کے غالب آنے کا خطرہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کے لئے اس دشمن کے خلاف ترک جہاد جائز ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ یا تو مسلما ہوجانے یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائے۔ حضرت ابن عمر ؓ ، عطاء، عمرو بن دینار اور ابن بشرمہ کا یہ قول تھا کہ امام المسلمین نیز مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہوگا کہ وہ ایسے دشمن کے خلاف جنگ نہ کریں اور اپنا ہاتھ روک لیں۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ امام المسلمین نیز مسلمانوں پر ایسے دشمن کے خلاف جنگی کارروائیاں کرتے رہنا ضروری ہوگا یہاں تک کہ وہ یا تو مسلمان ہوجائیں یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائیں۔ ہمارے اصحاب کا اور سلف میں سے حضرت مقداد بن الاسود ؓ ، حضرت ابو طلحہ ؓ نیز دیگر صحابہ کرام اور تابعین جن کا ہم نے ذکر کیا ہے یہی مسلک ہے۔ حضرت حذیفہ بن ایمان ؓ کا قول ہے کہ اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ آپ نے جہاد کو ایک حصہ قرار دیا۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن الیمان نے انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے کہ معمر کہتے تھے کہ مکحول قبلے کی طرف رخ کرلیتے پھر دس دفعہ قسمیں کھا کر کہتے کہ جہاد واجب ہے، پھر فرماتے کہ اگر تم لوگ چاہو تو میں یہی بات اس سے زائد بار قسمیں کھا کر بھی کہہ سکتا ہوں۔ “ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں جعفر بن یمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے العدء بن الحارث یا کسی اور سے، انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر جہاد فرض کردیا ہے خواہ وہ بیٹھ رہیں یا جہاد پر چلے گئے جو شخص بیٹھ رہے گا وہ بھی گویا تیاری پر ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر جس وقت اسے مدد کے لئے کہاجائے گا وہ مدد کرے گا اور جب اسے محاذ پر جانے کے لئے بلایا جائے گا تو وہ فوراً نکل کھڑا ہوگا اور اگر اس کی مطلقاً ضرورت نہیں پڑے گی تو گھر بیٹھ رہے گا۔ “ ابن شہاب کا یہ قول ان لوگوں کے مسلک کے مطابق ہے جو جہاد کے فرض کفایہ ہونے کے قائل ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ، عطاء اور عمرو بن دینار کے اس قول سے کہ جہاد فرض نہیں ہے ان حضرات کی مراد یہ ہو کہ جہاد فرض عین نہیں ہے کہ ہر متعین شخص پر اس کی فرضیت ثابت ہو جس طرح نماز اور روزہ فرض عین ہے بلکہ یہ فرض کفایہ ہے۔ فرضیت جہاد پر قرآنی آیات جہاد کی فرضیت کی موجب آیات بہت زیادہ ہیں، ارشاد باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ، ان سے لڑو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کا ہوجائے) یہ آیت کا ئووں سے قتال کے وجوب کی مقتضی ہے حتیٰ کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ ارشاد ہوا (قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم۔ ان سے لڑو اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو سزا دے گا اور رسوا کرے گا) تا آخر آیت، فرمایا (قاتلوا الٓین لایومنون باللہ والیوم الاخر۔ ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے) تا آخر آیت۔ ارشاد ہوا۔ (فلاتھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلمون واللہ معکم۔ تم کمزوری نہ دکھائو اور انہیں صلح کی طرف نہ بلائو اور تم ہی غالب ہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) نیز فرمایا (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم۔ مشرکین کو جہاں پائو قتل کردو) ارشاد ہوا (وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ ۔ تم سب مل کر مشرکین سے لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں) نیز فرمایا (انفروا خفافاً وثقالاً وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ۔ نکل پڑو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو) نیز (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیما ویستبدل قوما غیرکم۔ اگر تم نہیں نکلوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو کھڑا کردے گا) نیز ارشاد ہوا (فانفروا ثبات اوانفرو جمیعاً ۔ پھر گروہ درد گروہ کوچ کرو یا اکٹھے ) فرمایا (یایھا الذین اٰموا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تومنون باللہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ نہ بتادوں ؟ جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گی، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال او اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کے عذاب سے نجات کی صورت ہی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور جان و مال کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کی جائے۔ یہ آیت دو وجوہ سے فرضیت جہاد کے معنی کو متضمن ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان اللہ وبالرسول کی فرضیت کے ساتھ مقرون کرکے بیان کیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کے عذاب سے ایمان اور جہاد کے ذریعے نجات مل سکتی ہے اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ واجبات یعنی فرائض کو ترک کرنے پر ہی کوئی شخص عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ ارشاد ہے (کتب علیکم القتال تم پر قتال فرض کردیا گیا) یہاں کتب کے معنی فرض کے ہیں یعنی تم پر فرض کردیا گیا جس طرح روزے کی فرضیت کے بارے میں قول باری ہے (کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کردیئے گئے) اگر یہ کہا جائے کہ محولہ بالا آیت کا حکم اسی طرح ہے جس طرح آیت (کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیۃ للوالدین ولاقربین بالمعروف جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں معروف طریقے سے والدین اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرجائو) اس میں امر کو استحباب پر محمول کیا گیا ہے فرضیت پر نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت کی بنا پر وصیت کبھی فرض ہوا کرتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب اللہ تعالیٰ نے ابھی میراث کی فرضیت کا حکم نازل نہیں کیا تھا پھر میراث کے حکم کے ساتھ وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا تاہم آیت کے الفاظ ایجاب پر دلالت کرتے ہیں الا یہ کہ استحباب پر دلالت قائم ہوجائے لیکن جہاد کے سلسلے میں کوئی ایسی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے جس سے معلوم ہوجائے کہ جہاد مستحب ہے۔ حضور ﷺ پر جنگ کی دوسری ذمہ داری ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور دیگر آیات کے ذریعے تمام مکلفین پر بقدر مکان جہاد کی فرضیت کو موکد کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمادیا (فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک وحرمض المومنین۔ اللہ کی راہ میں قتال کرو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے ذمہ دار نہیں ہو اور اہل ایمان کو قتال پر ابھارو) اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ پر جہاد کے سلسلے میں دوہری فرضیت عائد کردی اور فرضیت تو یہ کہ بذات خود جہاد کریں، جہاد میں شریک ہوں اور میدان جہاد میں موجود ہوں اور دوسری یہ کہ لوگوں کو جہاد پر ابھاریں، انہیں اس کی ترغیب دیں اور ان کے سامنے اس کی فضیلتیں بیان کریں۔ حضور ﷺ کے پاس چونکہ مال نہیں تھا اس لئے جہاد کے سلسلے میں آپ ﷺ کو انفق مال کا حکم نہیں دیا گیا جبکہ دوسروں کو اس حکم ان الفاظ میں دیا گیا : (نکلو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو) اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر جو اہل قتال ہو اور اس کے پاس مال بھی ہو، جان و مال سے جہاد کرنا فرض کردیا پھر دوسری آیت میں فرمایا (وجآء المعذرون من الاعراب لیوذن لھم وقعد الذین کذبوا اللہ ورسولہ سیصیب الذین کفروا منھم عذاب الیم۔ لیس علی الضعفآء ولا علی المرض ولا علی الذین لا یجدون ماینفقون حرج اذا نصحوا للہ ورسولہ۔ بدوی عربوں میں سے بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی اجئے۔ اس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لئے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں) اللہ تعالیٰ نے درماندگی اور مال کی عدم موجودگی کی بنا پر جن لوگوں سے اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کی فرضیت کو ساقط کردیا ان پر کم از کم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کا فریضہ ضرور عائد کردیا۔ اس لئے تمام مکلفین پر درجہ بدرجہ جہاد کی فرضیت ہے جیسا کہ ہم درج بالا سطور میں بیان کر آئے ہیں اس حکم سے کوئی مکلف بھی خارج نہیں ہے۔ فرضیت جہاد پر ارشادات نبوی جہاد کی فرضیت کی تاکید میں بکثرت رواتیں منقول ہیں۔ ہمیں عمرو بن حفص سدوسی سے روایت بیان کی گئی، انہیں عاصم بن علی نے، انہیں قیس بن الربیع نے جبلہ بن سحیم سے، انہوں نے موثر بن عفارہ سے اور انہوں نے حضرت بشیر بن لاخصاصیہ ؓ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں بیعت کرنے کی نیت سے حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول، آپ مجھ سے کن باتوں پر بیعت لیں گے ؟ یہ سن کر حضور ﷺ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا اور فرمایا : ” میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں پانچ فرض نمازیں ان کے اوقات میں اداکرو، فریضہ زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول، میں ان میں سے دو باتوں پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں، زکوٰۃ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے کہ میرے اہل خاندان کے پاس بار برداری کی اونٹنیاں ہیں نیز وہ لوگ کام کاج کرتے رہتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں جو آمدنی ہوتی ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی مل جاتا ہے اور بس۔ میں جہاد بھی نہیں کرسکتا اس لئے کہ میں ڈرپوک انسان ہوں۔ خطرہ ہے کہ کہیں ڈر کے مارے میدان جہاد سے بھاگ کھڑا نہ ہوں اور اس طرح اللہ کے غضب کا مستحق بن کر نہ لوٹوں۔ “ یہ سن کر حضور ﷺ نے اپنی مٹھی بیھنچ لی اور فرمایا : ” بشیر ! نہ تم جہاد کرو نہ صدقہ دو ۔ تو پھر جنت میں کیسے جائو گے ؟ “ میں نے یہ سنتے ہی عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! ہاتھ آگے کیجئے “ آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک آگے کردیا اور میں نے مذکورہ بالا باتوں پر آپ سے بیعت کرلی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، ابراہیم بن عبداللہ نے ، انہیں حجاج نے ، انہیں حماد نے ، انہیں حمید نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (جاھدو المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم مشرکین کے خلاف اپنے مال، اپنی جان اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرو) ۔ آپ ﷺ نے ہر اس چیز کے ذریعے جہاد واجب کردیا جس کے ساتھ جہاد کرنا ممکن ہو۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد کوئی ایسا فرض نہیں ہے جس کی فرضیت جہاد کی فرضیت سے زیادہ موکد اور اولیٰ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی ہوجاتی ہے لیکن اگر جہاد کا فریضہ ترک کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر ان کے دشمن غالب آجاتے ہیں، دین مٹ جاتا اور اسلام ختم ہوجاتا ہے تاہم جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جسے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے واقدبن محمد س انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (نبی الاسلام علی خمس۔ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے) آپ نے اس سلسلے میں شہادتیں کا ذکر فرمایا، نیز نماز، روزہ، کوٰۃ اور حج کا تذکرہ کیا۔ آپ نے یہ پانچ چیزیں بیان کیں لیکن جہاد کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ جہاد فرض نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ روایت دراصل مرفوع روایت نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ اساد حضرت ابن عمر ؓ پر جاکر ختم ہوجاتا ہے جس کی بنا پر یہ موقوف روایت ہے۔ اسے وہب نے عمر بن محمد سے انہوں نے زید سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ انہوں نے فرمایا : ” میں نے یہ پایا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔ “ حضرت ابن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ ” میں نے پایا ہے “ اس امر کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی رائے کی بنا پر کہی ہے جس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ ان کے سوا اور دوسرے صحابہ کرام کو اسلام کی بنیاد ان پانچ سے زائد باتوں پر نظر آتی ہو چناچہ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کا قول ہے کہ اسلام کی بنیاد آٹھ اجزاء پر رکھی گئی ہے جن میں سے ایک جز جہاد ہے۔ یہ قول حضرت ابن عمر ؓ کے قول کے معارض ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعید اللہ بن موسیٰ نے روایت کی ہے۔ انہیں حنظلہ بن ابی سفیان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عکرمہ بن خالد کو طائوس سے یہ کہتے ہوئے سنا تھ کہ ایک شخص حضرت ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا : ابو عبدارلحمن ! آپ جہاد پر کیوں نہیں جاتے ؟ حضرت ابن عمر ؓ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ “ اس حدیث کی سند درست ہے اور حضور ﷺ تک پہنچتی ہے جس کی بنا پر روایت مرفوع ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے صرف پانچ باتوں کے ذکر پر اس لئے اقتصار کیا ہو یہ ہر انسان پر فرض عین ہیں اور ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں۔ آپ نے اس فرض کا ذکر نہ کیا ہو جس کی حیثیت فرض عین کی نہیں بلکہ فرض کفایہ کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اقامت حدود، علم دین کا حقول اور مردوں کا غسل اور ان کی تجہیز و تکفین سب فرائض میں داخل ہیں لیکن آپ نے اسلام کے بنیادی فرائض کا ذکر کرتے ہوئے ان کا تذکرہ نہیں کیا تاہم آپ کا انہیں ذکر نہ کرنا اس امر کا مقتضی نہیں ہے کہ یہ باتیں فرائض کے دائرے سے خارج ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے درج بالا ارشاد میں ان فرائض کے ذکر تک بات محدود رکھی ہے جو ہر انسان کو انفرادی طور پر اور اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں نیز جن کے لئے مقررہ اوقات ہیں اور کوئی اور فرض ان اوقات میں ان کے قائم مقام نہیں ہوسکتا اور نہ ان کی خانہ پری کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جہاد فرض کفایہ ہے جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کی ہے اسی بنا پر حضور ﷺ نے اس کا تذکرہ نہیں فرمایا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے جہاد کے وجوب پر دلالت کرنے والی روایت نقل کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن شیرویہ سے اس حدیث کی روایت کی گئی ہے انہیں اسحاق بن راہویہ نے ، انہیں جریر نے لیث بن ابی سلیم سے، انہوں نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ : ہم پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب ہم میں سے کوئی شخص بھی اپنے مسلمان بھائی کے مقابلہ میں اپنے آپ کو درہم و دینار کا زیادہ حق دار نہیں سمجھتا تھا اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمان بھائی کی بہ نسبت ہمیں درہم و دینار سے زیادہ محبت ہے حالانکہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جب درہم و دینار پر لوگوں کا یقین بڑھ جائے اور لوگ آپس میں چیزوں کو ان کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار خریدوفروخت کریں اور گایوں کی دموں کے پیچھے لگے رہیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ایسی ذلت میں مبتلا کردے گا جو ان سے اس وقت تک دور نہیں ہوگی جب تک وہ دین کی طرف پوری طرح رجوع نہیں کرلیں گے۔ ہمیں خلف بن عمرو العبکری سے روایت بیان کی گئی ہے، انہیں المعلی بن المہدی نے ، انہیں عبدالوارث نے، انہیں لیث نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے، انہوں نے عطا سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اس سے ملتی جلتی روایت کی ہے۔ روایت کے الفاظ جہاد کے وجوب کے مقتضی ہیں اس لئے کہ حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ جہاد ترک کرنے کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ انہیں ذلت میں مبتلا کردے گا اور سزائیں صرف اس صورت میں لازم ہوتی ہیں جب واجبات یعنی فرائض تک کردیئے جائیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کا مسلک بھی یہی ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے اس لئے فرض جہاد کی نفی کے سلسلے میں ان سے جو روایت منقول ہے وہ اس معنی پر معمول ہے جو ہم نے بیان کیا ہے کہ جہاد کا فریضہ ہر زمانے اور حالت میں ہر شخص پر لازم نہیں ہوتا یعنی یہ فرض عین نہیں ہے۔ جہاد فرض کفایہ ہے اس پر قول باری (وما کان المومنون لینفروا کافۃ) اور قول باری (فانفروا ثبات اوانفروا جمیعاً ) دلالت کرتے ہیں۔ نیز فرمایا (لایستوی القاعدون من المومنین غیر اولی الضرروا امجاھدون فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم، فضل اللہ المجاہدین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃ وکلا وعداللہ الحسنیٰ ۔ اہل ایمان میں سے جہاد سے بیٹھ رہنے والے۔ بجز اس کے کہ انہیں کوئی معذوری ہو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے اور ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھلائی ہی کا وعدہ کیا ہے) اگر ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت میں جہاد فرض ہوتا تو جہاد سے گھر بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بھلائی کا وعدہ نہ کیا جاتا۔ بلکہ ترک جہاد کی بنا پر ان کی مذمت کی جاتی اور عذاب کا مستحق گردانا جاتا۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے، انہوں نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (فانفرواثبات اوانفروا جمیعاً ) اور (انفروا خفافاً وثقالاً ) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں کو قول باری (وما کان المومنون لینفروا کافۃ، فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون۔ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ ایک گروہ جہاد کے لئے نکل جائے اور ایک گروہ حضور ﷺ کے ہمراہ رہے۔ حضور ﷺ کے ساتھ رہ جانے والے لوگ دین میں سمجھ پیدا کریں اور جہاد پر جانے والے بھائیوں کو ان کی واپسی پر اللہ کی آیات، اس کے نازل کردہ احکامات اور اس کے مقرر کردہ حدود کے متعلق انہیں باخبرکریں تاکہ وہ بھی اللہ کی نافرمانی سے پرہیزکریں۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد وہ فوجی مہمات ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف اطراف میں بھیجی جاتی تھیں جنہیں سرایا (جمع سریہ) کہا جاتا ہے۔ یہ سرایا جب مدینے سے روانہ ہوتے تو ان کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات و احکامات کو حضور ﷺ کے پاس ٹھہرجانے والے لوگ سیکھ لیتے۔ جب یہ سرایا واپس ہوتے تو ان میں شامل لوگ مدینہ منورہ میں ٹھہر جاتے اور حضور ﷺ پر نازل ہونے والی آیات و احکامات کی اپنے ٹھہرے رہنے والے بھائیوں سے تعلیم حاصل کرتے اور ان کی جگہ دوسرے لوگوں پر مشتمل فوجی دستوں کو مہمات پر روانہ کردیا جاتا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یتفقھوا فی الدین ولینھذروا قومھم اذا رجعوا الیھم) ہم نے اوپر جن آیات کا حوالہ دیا ہے اور ان کی جو تفسیر پیش کی ہے اس سے فرضیت جہاد کا لزوم ثابت ہوگیا نیز اس پر بھی دلالت ہوگئی کہ جہاد فرض کفایہ ہے اور ہر شخص کے لئے اس کی ذاتی حیثیت میں لازم نہیں ہے یعنی فرض عین نہیں ہے اور ہر شخص کی جان و مال میں اس کا لزوم نہیں ہے جبکہ اس کی ادائیگی کے لئے دوسرے افراد موجود ہوں اور یہ فرضہ ادا کررہے ہوں۔
Top