Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
عفا اللہ کے معانی قول باری ہے (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین۔ اے نبی ﷺ ! اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی ؟ (تمہیں چاہیے کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے) عضو کے کئی معانی ہیں۔ تسہیل و توسعہ کو بیھ عفو کہتے ہیں جس طرح حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (اول الوقت رضوان اللہ واخرہ عفو اللہ۔ اول وقت میں نماز کی ادائیگی سے اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور آخر وقت کی ادائیگی میں اللہ کی طرف سے گنجائش اور وسعت ہوتی ہے) عفو ترک کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے (احفوا الشوارب واعفوا اللحیٰ ۔ مونچھیں خوب کتروائو اور ڈاڑھی کے بال چھوڑ دو ) عفو کثرت کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (حتیٰ عفو ! یہاں تک کہ ان کی کثرت ہوگئی) یعنی ان کی تعداد بہت ہوگئی۔ اسی طرح محاورہ ہے۔ ” اعفیت فلانا من کذا وکذا (میں نے فلاں کی فلاں چی سے جان چھڑا دی) یہ فقرہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کو چھوڑ دینا آسان بنادے۔ گناہ سے درگزر کرنا بھی عفو کہلاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ گنہگار کو اس گناہ کے نتائج سے چھٹکارا دے کر اسے اس کی سزا نہ دی جائے۔ اس مقام پر عفو کا لفظ غفران کے ہم معنی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اصل معنی تسہیل کے ہوں جب خدا اپنے بندے کے گناہ معاف کردیتا ہے تو گویا وہ اس سے اس کا بدلہ نہ لے کر اس کے لئے معاملہ آسان کردیتا ہے۔ اس لفظ کے مذکورہ بالا تمام معانی کے اندر اس بات کی گنجائش ہے کہ اصل معنی ترک اور توسعہ کے ہوں بعض لوگوں کا قول ہے کہ منافقین کو اجازت دے کر گویا حضور ﷺ سے گناہ صغیرہ کا صدور ہوگیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (عضا اللہ عنک لم اذنت لھم) اس لئے کہ ہمارے لئے یہ فقرہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ ” تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کے لئے میں نے تمہیں کہا تھا ” جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دیا تھا “ اس لئے اس فعل پر عفو کا اطلاق درست نہیں ہوگا جسے کرنے کے لئے کہا گیا۔ جس طرح یہ درست نہیں ہوگا کہ جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اس کے سلسلے میں کرنے والے کو معافی دے دی جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں اجازت دے کر کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں حضور ﷺ کو جن الفاظ کے ساتھ خطاب کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کی اگرچہ اجازت تھی لیکن ایک دوسرا کام اس سے بہتر اور اولیٰ تھا اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ حضور ﷺ کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا جائے اور ایک بات دوسری سے اولیٰ ہو۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجات بزینۃ وان یستعففن خیر لھن۔ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا مظاہرہ کرنے والی نہ ہوں اور اگر اس سے بھی احتیاط کریں تو ان کے حق میں اور بہتر ہو) اللہ تعالیٰ نے دونوں باتیں مباح کردیں لیکن ان میں سے ایک کو اولیٰ قرار دیا۔ شعبہ نے قتادہ سے قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ حکم اسی طرح تھا جیسا کہ تم سنتے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں یہ آیت نازل فرمائی (واذا کانو معہ علی امر جامع ثم یذھبوا حتی یستاذنوہ ۔ اور جب رسول کے ساتھ کسی ایسے کام پر ہوتے ہیں جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا گیا ہو تو جب تک تم سے اجازت نہیں لیتے نہیں جاتے) تا قول باری (فاذن لمن مشئت منھم تو تم ان میں سے جس کو چاہو اجازت دے دو ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رخصت اور اجازت دے دی۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون باللہ والیوم الاٰخر وارتابت قلوبھم فھم فی ریبھم یترددون۔ جو لوگ سچے دل سے اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے درخواست نہیں کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف کیا جائے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ آیت بعینہ منافقین کے بارے میں ہے جب انہوں نے جہاد سے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مانگی تھی حالانکہ انہیں عذر بھی درپیش نہیں تھا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے عذر کو قبول کرتے ہوئے فرمایا (وآذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون) الخ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اسے اس قول باری نے منسوخ کردیا ہے (واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) تا قول باری (فاذن لمن شئت منھم) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو دو باتوں میں سے اعلیٰ بات کو اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں ممکن ہے کہ قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) منافقین کے ایک گروہ کے متعلق ہوج سے نفاق کی تہمت لگ چکی ہو اور حضور ﷺ نے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت نہ دے کر ان لوگوں کی حقیقت حال کو پرکھنا چاہا ہو تاکہ جو لوگ جہاد میں نکل پڑنے کے حکم کے بعد بھی نہ نکلیں ان کا نفاق ظاہر ہوجائے۔ اس صورت میں ایسے لوگوں کے متعلق آیت کا حکم ثابت رہے گا منسوخ نہیں سمجھا جائے گا اس پر قول باری (حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین ) بھی دلالت کرتا ہے۔ اس بنا پر قول باری (واذا کانوا معہ علیٰ امر جامع لم یھذبوا حتیٰ یستاذنوہ) نیز (فاذن لمن شئت منھم) ان اہل ایمان کے بارے میں ہوگا جنہیں اگر اجازت نہ ملتی تو نہ جاتے۔ اس تفسیر کی بنا پر دو نوں میں سے کوئی بھی آیت دوسری آیت کو منسوخ نہیں کرے گی۔
Top