Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 47
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
اگر وہ تم میں (شامل ہو کر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور تم میں انکے جاسوس بھی ہیں۔ اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
قول باری ہے (لو خرجوا فیکم مازادوکم الا خبالاً ولا وضعوا خللکم یبغونکم الفتنۃ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے) آیت میں ان کی اس نیت کا ذکر ہے جسے لے کر وہ مسلمانوں کے ساتھ نکلتے، اگر انہیں نکلنے کا ارادہ ہوتا۔ آیت میں یہ بتادیا گیا کہ ان کانہ نکلنا ہی مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپن نبی ﷺ سے آیت (لواذنت لھم) میں جس انداز سے خطاب فرمایا تھا وہ اس پر مبنی تھا کہ اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ اگر حضور ﷺ ان منافقین کو بیٹھ رہنے کی اجازت نہ بھی دیتے تو بھی یہ نہ نکلتے اور اس طرح ان کا کذب اور منافق مسلمانوں پر واضح ہوجاتا اب اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اگر یہ نکل بھی پڑتے تو مذکورہ بالا نیت اور ارادے کے ساتھ ان کا نکلنا سراسر معصیت اور کفر ہوتا اور مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا۔ قول باری (مازادوکم الا خبالاً ) میں خیال کے معنی رائے کا اضطراب اور انتشار کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اگر یہ لوگ لشکر اسلام کے ساتھ نکل بھی پڑتے تو پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے، دلوں میں فساد پیدا کرنے اور دشمنوں کے مقابلہ میں انہیں پست ہمت کرنے کی پوری کوشش کرتے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی آراء میں انتشار اور اضطراب پیدا ہوجاتا اور ان کی یکسوئی اور یک جہتی ختم ہوجاتی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مازادوکم الا خبالا) کیوں فرمایا حالانکہ مسلمانوں میں کوئی فکری انتشار نہیں تھا جس میں یہ منافقین اضافہ کردیتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس فقرے میں دو معنوں کا احتمال ہے ایک تو یہ کہ استثناء منقطع ہے اور اس صورت میں عبارت کچھ اس طرح ہے ” مازادوکم قوۃ لکن طلبوا لکم الخیال “ (یہ تمہاری قوت میں اضافے کا سبب نہ بنتے البتہ تمہارے اندر فکری انتشار پیدا کرنے کا کوئی وسیلہ ضرور تلاش کرتے) دوسرا احتمال یہ ہے کہ انتشار آراء کی یہ کیفیت مسلمانوں کے کسی گروہ میں موجود ہو جس کی بنیاد طبیعتوں کی تلون مزاجی ہو اور پھر بعد میں ان کی آراء میں ٹھہرائو اور مستقل مزاجی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہو۔ ایسے لوگوں کی تلون مزاجی کو منافقین کی حرکتوں سے تقویت ملتی اور ان کے خیالات درست راستے سے بھٹک کر فکری انتشار کے شکار ہوجاتے۔ قول باری (ولا دفعوا خلاکم) کی تفسیر میں حسن کا قول ہے کہ یہ لوگ تمہارے آپ کے تعلقات بگاڑنے کے لئے ایک دوسرے کی چغلی کھات اور اس مقصد کے لئے دوڑ دھوپ کرتے۔ قول باری (یبغونکم الفتنۃ) میں فتنہ سے مراد وہ آزمائش اور ابتلاء ہے جو مسلمانوں کو ان کے آپس کے اختلافات اور فکری انتشار کی بنا پر پیش آتی۔ فتنہ سے کفر مراد لینا بھی درست ہے اس لئے کہ کفر کو اسی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ۔ اور ان سے لڑو حتیٰ کہ کوئی فتنہ یعنی کفر باقی نہ رہے) اسی طرح ارشاد ہے (والفتنۃ اشد من القتل۔ اور فتنہ یعنی کفر قتل سے بھی زیادہ گھنائونا جرم ہے) ۔ قول باری ہے (وفیکم سماعون لھم۔ اور تمہارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں) حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ ان کے جاسوس تمہارے اندر موجود ہیں جو تم سے باتیں سن کر انہیں پہنچا دیتے ہیں۔ قتادہ اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو ان منافقین کی باتیں سن کر انہیں قبول کرلیتے ہیں۔
Top