Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 5
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِذَا : پھر جب انْسَلَخَ : گزر جائیں الْاَشْهُرُ : مہینے الْحُرُمُ : حرمت والے فَاقْتُلُوا : تو قتل کرو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) حَيْثُ : جہاں وَجَدْتُّمُوْهُمْ : تم انہیں پاؤ وَخُذُوْهُمْ : اور انہیں پکڑو وَاحْصُرُوْهُمْ : اور انہیں گھیر لو وَاقْعُدُوْا : اور بیٹھو لَهُمْ : ان کے لیے كُلَّ مَرْصَدٍ : ہرگھات فَاِنْ : پھر اگر تَابُوْا : وہ توبہ کرلیں وَاَقَامُوا : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ : اور زکوۃ ادا کریں فَخَلُّوْا : تو چھوڑ دو سَبِيْلَهُمْ : ان کا راستہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحیم
جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
اشہر حرم گزرنے پر مشکین سے قتال قول باری ہے (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین حیث و جدتموھم پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو) معاویہ بن صالح نے علی بھ ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ قول باری (لست علیھم بسطیطر آپ ﷺ ان پر کچھ مسلط تو نہیں ہیں) نیز (وما انت علیھم بجبار اور آپ ان پر جبر کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے) نیز (قل للذین امنوا یغفروا للذین لا یرجون ایام اللہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ درگزر سے کام لیں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) ان سب کو ان دو آیات نے منسوخ کردیا ہے۔ پہلی آیت یہ ہے (فاقتلو المشرکین حیث و جدتموھم) اور دوسری آیت یہ ہے (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر۔ ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے) تا آخر آیت۔ موسیٰ بن عقبہ کا قول ہے کہ اس سے قبل حضور ﷺ اس قول باری (و القوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیھم سبیلا اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) کی بنا پر ان مشرکین سے اپنا ہاتھ روک رکھتے جو آپ سے جنگنہ کرتے پھر قول باری (براء ۃ من اللہ و رسولہ) نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ پھر فرمایا (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں آیت زیر بحث کا عموم تمام مشرکین کو خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب قتل کرنے کی مقتضی ہے۔ نیز یہ کہ ان سب سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہ کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو جزیہ کے بدلے ان کے مذہب پر برقرار رکھ کر ان کی تخصیص کردی چناچہ ارشاد باری ہے (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر) تا آخر آیت۔ حضور ﷺ نے ھجر کے علاقے میں رہنے والے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔ علقمہ بن مرثد کی روایت میں جو انہوں نے ابن بریدہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے کہ آپ جب کوئی فوجی مہم یعنی سریہ روانہ کرتے تو اس میں شامل مجاہدین کو یہ ہدایات دیتے کہ ” جب مشرکین سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو ، اگر وہ انار کریں تو انہیں جزیہ ادا کرنے کے لئے کہو اگر وہ یہ بات مان جائیں تو ان سے جزیہ وصول کرلو اور اپنا ہاتھ ان سے روک لو۔ “ اس حکم میں تمام مشرکین کے لئے عموم ہے لیکن ہم نے آیت کی بنا پر ان مشرکین ی تخصیص کردی جو مشرکین عرب میں سے نہیں تھے اور قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم) کا حکم مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہوگیا دوسرے مشرکین اس حکم میں داخل نہ رہے۔ محاصرہ سے مشرکین کو غور و خوض کا موقع مل جائے گا قول باری (وخدوھم احصروھم اور انہیں پکڑو اور گھیرو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں پکڑنے کے بعد قید کردیا جائے اور انہیں قتل کرنے میں سست روی اختیار کی جائے تاکہ انہیں اسلام کے متعلق سوچنے اور اسے قبول کرنے کا موقع مل جائے اس لئے کہ حصر کے معنی حبس یعنی قید کرنے کے ہیں۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ مشرکین کو ان کے قلعوں اور شہروں میں محصور کردینا بھی جائز ہے جبکہ ان میں بچے اور عورتیں موجود ہوں جن کا قتل جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ محاصرہ کے ذریعے ان کا مقابلہ کیا جائے۔ قول باری (فاقتلوا لمشرکین) کا عموم مشرکین کو قتل کی تمام صورتوں کے ذریعے قتل کرنے کے جواز کا مقتضی ہے تاہم حضور ﷺ کی سنت سے مثلہ کرنے یعنی اعضاء و جوارح کاٹ ڈالنے اور باندھ کر تیروں سے قتل کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (اعف الناس قتلۃ اہل الایمان۔ اہل ایمان کے قاتلین مکروہ ترین لوگ ہیں) نیز آپ نے فرمایا (اذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ) جب تم کسی کو قتل کرو تو یہ عمل بھی اچھے طریقے سے انجام دو ) حضرت ابوبکر نے جب مرتدین کو آگ میں جلا کر، سنگسار کر کے، پہاڑوں سے نیچے گرا کر اور کنووں میں ہلاک کیا تھا تو عین ممکن ہے کہ انہوں نے ظاہر آیت سے استدلال کیا ہو، حضرت علی ؓ نے بھی مرتدین کے ایک گروہ کو آگ میں جلا کر ہلاک کیا تھا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے آیت کے عموم کا اعتبار کیا ہو۔ قول باری ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم، اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) آیت میں مذکور افعال ک وجود یا تو ان سے قتل کا حکم ٹل جانے کے لئے شرط قرار پائے گا یا ان کو قبول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہی اس حکم کے ٹل جانے کے لئے کافی ہوگا۔ ان افعال کے وجود کی کوئی شرط نہیں ہوگی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شرک سے توبہ کا وجود ہی اس حکم کے ٹل جانے کے لئے لامحالہ شرط ہے۔ نیز اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر مشرکین نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ کا حکم تسلیم کرلیں لیکن وہ وقت نماز کا وقت نہ ہو تو وہ مسلمان کہلائیں گے اور ان کی جان مفحظو ہوجائے گی اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر مشرکین اللہ کے اوامر کو قبول کرلیں اور ان کے لزوم کا اعتراف بھی کرلیں تو اس کے ساتھ ان کے قتل کا حکم مل جائے گا۔ نماز کی ادائیگی یا زکوۃ کا اخراج اس کے لئے شرط نہیں ہے۔ نیز زکوۃ نکالنے کا حکم نفس اسلام کے لئے لازم نہیں ہوتا بلکہ سال گزر جانے کے بعد اس کا لزوم ہوتا ہے۔ اس لئے زکوۃ کی ادائیگی کو قتل کے حکم کے ٹل جانے کے لئے شرط قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح نماز کی ادائیگی بھی اس کے لئے شرط نہیں ہے۔ اس حکم کو ٹالنے کی شرط صرف یہ ہے کہ ان فرائض کو قبول کرلیا جائے۔ ان کا التزام کچیا جائے اور ان کے وجوب کا اقرار و اعتراف کیا جئاے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فان تابوا و اقاموالصلوۃ و اتوالزکوۃ) تو اس میں توبہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی اور زکوۃ کے اخراج کی شرط عائد کی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ کفر سے مکمل طور پر قطع تعلقی کر کے اسلام کی طرف لوٹ آنے کا نام توبہ ہے۔ اس لئے آیت میں توبہ کے ذکر کے ساتھ ان فرائض کے التزام اور ان کے اقرار کا مفہوم خودبخود ذہن میں آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر توبہ درست ہی نہیں ہوسکتی۔ پھر جب توبہ کے ساتھ نماز اور زکوۃ کی شرط عائد کردی تو اس سے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ مشرکین سے قتل کے حکم کو ٹالنے والی علت دراصل یہ ہے کہ ایمان کا اس کی شرائط کے ساتھ اعتقاد اور نماز کی ادائیگی نیز زکوۃ کا اخراج پایا جائے۔ یہ چیز نماز اور زکوٰۃ کے وجوب کے باوجود نماز نہ ڑھنے والے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کے قتل کو واجب کردیتی ہے۔ چاہے ایسا شخص ایمان کا اعتقاد اور اس کی شرائط کے لزوم کا اعتراف کیوں نہ کرتا ہو۔ اس ک جواب میں کہا جائے گا کہ اگر نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کا اخراج قتل کا حکم ٹل جانے کے لئے شرط قرار دیا جاتا تو یہ حکمران مشرکین سے ہرگز نہ ٹلتا جو نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کے اخراج کے اوقات کے سوا کسی اور وقت میں مسلمان ہوجاتے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اگر ایک مشرک ایمان کا اس کی شرائط کے ساتھ اعتقاد کرے اور اس کے لزوم کا اعتراف کرلے تو اس سے قتل کا حکم ٹل جاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کا اخراج قتل کا حکم ٹل جانے کی شرائط میں سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی شرط یہ ہے ک مشرک ایمان کا اظہار کرے اور اس کے احکامات کو قبول کرلے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ایمان کا اظہار اور احکامات کا التزام اس حکم کے ٹل جانے کے لئے شرط قرار دیئے گئے تو ان میں بعض کو ترک کرنے کی بنا پر ایسے شخص سے قتل کا حکم زائل نہیں ہوتا۔ قرآن کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے حضرات صحابہ کرام نے مانعین زکوٰۃ کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے لڑنے والے مردوں کو قتل کردیا تھا اور انہیں اہل ردہ یعنی مرتدین کے نام سے موسم کیا تھا اس لئے کہ انہوں نے زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کرنے اور اس کی ادائیگی کا التزام کرنے سے انکار کردیا تھا اسی بنا پر وہ مرتدین قرار دیئے گئے تھے۔ اس لئے کہ جو شخص قرآن کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ گویا پورے قرآن کا منکر ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے تمام صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مرتدین کے خلاف اسی طریق کار کو اپنایا اور ان کے ساتھ قتال کیا۔ زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کرنے سے انکار کی بنا پر ان کے مرتد ہوجانے پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے معمر نے زہری سے نقل کیا ہے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے اس کی روایت کی ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوگئی تو تمام عرب میں ارتداد کا فتنہ پھیل گیا۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا کہ آپ پورے عرب سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ” حضور ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ (جب لوگ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں نیز زکوٰۃ ادا کریں تو پھر وہ مجھ سے اپنا خون اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے) خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ مھ سے ایک رسی کی ادائیگی بھی روک دیں جسے وہ حضور ﷺ کو ادا کرتے تھے تو اس پر بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت ابوبکر ؓ کا جرأت مندانہ اقدام مبارک بن فضالہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوگئی تو عرب کے لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے۔ صرف مدینہ منورہ اور کچھ دوسرے علاقوں کے لوگ اس سے محفوظ رہے حضرت ابوبکر ؓ نے ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا، ہم اللہ کی وحدانیت اور معبودیت کی گواہی دیتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم زکوٰۃ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں “۔ حضرت عمر ؓ اور دیگر بدری صحابہ کرام حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ تجویز پیش کی کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جب اسلام ان کے دلوں میں گھر کر جائے گا تو یہ خود زکوٰۃ کی ادائیگی شروع کردیں گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا : بخدا اگر یہ لوگ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور ﷺ کو زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو اس پر بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضور ﷺ نے تین باتوں کو نہ ماننے پر لوگں سے جنگ کی تھی۔ کلمہ طیبہ کے عدم اقرار پر اور نماز نیز زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر، اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوالزکوۃ فخلو سبیلھم۔ اگر یہ توبہ کرلیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) بخدا میں ان سے نہ اس سے زائد کا مطالبہ کرتا ہوں اور نہ اس سے کم کا۔ “ مانعین زکوٰۃ نے کہا کہ ہم زکوٰۃ نکالیں گے لیکن آپ کے حوالے نہیں کریں گے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں جواب دیا۔ نہیں، بخدا نہیں، جب تک زکوٰۃ تم لوگوں سے وصول نہیں کروں گا جس طرح حضور ﷺ وصول کرتے تھے، اور جب تک زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصارف میں خرچ نہیں کروں گا اس وقت تک میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ حماد بن زید نے ایوب سے اور انہوں نے محمد بن سیرین سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے ہ جب حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا اور حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بن گئے اور عرب کے لوگ مرتد ہوگئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنے کے لئے فوجیں روانہ کیں۔ اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا کہ آپ ؓ نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ ” مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب وہ اس کا اقرار کرلیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے۔ الا یہ کہ حق کی بنا پر کسی کی جان یا مال پر ہاتھ ڈالاجائے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ “ حضرت ابوبکر نے یہ سن کر فرمایا : خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ ایک رسی بھی مجھے دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور ﷺ کو زکوٰۃ میں ادا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ “ ان تمام راویوں نے یہ بتایا ہے کہ عرب کے جو لوگ مرتد ہوگئے تھے ان کا ارتداد اس بنا پر تھا کہ انہوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ امر اس پر محمول ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ کے فریضہ کو رد کرتے ہوئے اور اسے قبول نہ کرتے ہوئے اس کی ادائیگی سے انکار کیا تھا اسی بنا پر انہیں مرتدین کے نام سے موسم کیا گیا تھا۔ منکرین زکوٰۃ فرضیت زکوٰۃ کے قائل تھے حسن کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ بتایا تھا ک آپ ان سے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کی بنا پر جنگ کر رہے ہیں اگرچہ وہ اس کی فرضیت کا اقرار کرتے تھے اس لئے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم زکوۃ نکالیں گے لیکن اسے آپ کے یعنی حضرت ابوبکر ؓ کے حوالے نہیں کریں گے، اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا تھا کہ نہیں بخدا نہیں، میں ان سے زکوٰۃ اسی طرح وصول کروں گا جس طرح حضور ﷺ وصول کیا کرتے تھے “ حضرت ابوبکر ؓ کے قول میں دو باتوں پر دلالت ہو رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ جو شخص زکوٰۃ اپنے اوپر لازم سمجھتے ہوئے اور اس کے وجوب کا اعتقاد نہ رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی سے انکار کرے وہ مرتد کہلائے گا، دوسری بات یہ کہ جو شخص زکوٰۃ کے وجوب کا اقرار کرتا ہو لیکن زکوٰۃ امام المسلمین کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہو وہ اس بات کا سزاوار گردانا جائے گا کہ اس کے خلاف جنگ کی جائے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ فقراء ومساکین کے حوالے کر دے گا تو امام المسلمین اس کا احتساب نہیں کرے گا لیکن اگر وہ اسے امام المسلمین کو ادا کرنے سے انکار کر دے گا تو وہ اس پر اس شخص سے جنگ کرے گا۔ مویشیوں کی زکوۃ کے بارے میں ہمارے اصحاب کا بھی یہ مسلک ہے جہاں تک اموال کی زکوٰۃ کا تعلق ہے تو حضور ﷺ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر (رح) ان کی زکوٰۃ مویشیوں کی زکوٰۃ کی طرح خود وصول کرتے تھے۔ لیکن جب حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگو ! یہ تمہاری زکوٰۃ کی ادائیگی کا مہینہ ہے “ اس لئے جس شخص پر کوئی قرض ہو وہ اپنا قرض ادا کر دے اور پھر باقی ماندہ مال کی زکوٰۃ ادا کر دے “۔ حضرت عثمان ؓ نے زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری خود زکوٰۃ نکالنے والوں پر ڈال دی تھی اور یہ لوگ اس کی ادائیگی میں گویا امام المسلمین کے وکیل اور کارنے بن گئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جو اقدام کیا تھا اس میں انہیں صحابہ کرام کی پوری حمایت حاصل تھی، جب اس معاملہ میں حضرت ابوبکر ؓ کی رائے اور اجتہاد یک صحت ان حضرات کے سامنے واضح ہوگئی تو پھر کسی نے آپ سے اختلاف نہیں کیا۔ زیربحث آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنے والے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آیت شرک کے قتل کو واجب کرتی ہے الا یہ کہ وہ ایمان لے آئے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے۔ ہم نے قول باری (واقاموالصلوۃ و الوا الزکوۃ) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ اس سے راد یہ ہے کہ وہ ان دونوں باتوں کے لزوم اور فرضیت کا اقرار کرلیں اور ان کی فرضیت کا التزام کرلیں تو ان کے لئے یہی کافی ہوگا اور دونوں کو بجا لانا ضروری نہیں ہے۔ نیز آیت میں ان لوگوں کے مسلک کے حق میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت صرف مشرکین کے قتل کی موجب وہتی ہے۔ لیکن جو شخص شرک سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہو جاء اور اس کے فرائض کو لازم سمجھے اور اس کا اقرار کرلے وہ بالاتفاق مشرک نہیں ہوگا۔ اس طرح آیت ایسے شخص کے قتل کی مقتضی نہیں ہوگی۔ کیونکہ آیت کا حکم صرف اس شخص کے قتل کے ایجاب تک محدود ہے جو مشرک ہو جبکہ تارک صلوۃ اور مانع زکوٰۃ مشرک نہیں ہوتا۔ اگر یہ لوگ یہ کہیں کہ مشرک سے قتل کا حکم دو شرطوں کی بنیاد پر ٹل جاتا ہے۔ ایک توبہ یعنی ایمان لانا اور اس کی شرائط کو تسلیم کرنا دوسری یہ کہ نماز پڑھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (فاقتلوا المشرکینض کے ذریعے بنیادی طور پر مشرکین کے قتل کو واجب کردیا۔ اس لئے جب ایک شخص سے شرک کی علامت دور ہوجائے گی تو قتل کا حکم بھی اس سے ٹل جائے گا۔ اس صورت میں معترض کے لئے ایسے شخص کے قتلے ایجاب پر آیت کے سوا کوئی اور دلالت پیش کرنا ضروری ہوگا۔ اگر معترض یہ کہے کہ آپ کی وضاحت کے نتیجے میں آیت کے اندر بیان کردہ دونوں شرطوں کا ذکر بےفائدہ قرار پائے گا تو اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرخ معترض نے سوچا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عبادتوں یعنی اقامت صلوۃ اور ادائے زکوۃ کو مشرکین کے راستے سے ہٹ جانے کے وجوب کی شرط قرار دیا ہے کیونکہ ارشاد ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوالزکوۃ فخلو سبیلھم) اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر مشرکین کو گھیر کر قتل کرنے کے حکم کے بعد کیا ہے۔ جب شرک کی علامت زائل ہونے کی بنا پر قتل کا حکم بھی زائل ہوجائے گا تو ترک صلوۃ اور منع زکوۃ کی بنا پر گھیرنے اور قید میں رکھنے کا حکم باقی رہے گا۔ اس لئے کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے اور اس پر مصر ہوجائے اسی طرح زکوٰۃ ادا نہ کرے اسے امام المسلمین قید میں ڈا سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کی رہائی صرف اس صورت میں واجب ہوگی جب وہ نمازیں پڑھے گا اور زکوٰۃ نکالے گا۔ اس لئے زیربحث آیت مشرک کے قتل اور اسلام لانے کے بعدتارک صلوۃ نیز مانع زکوٰۃ نے حبس کے احکام پر مشتمل ہے تاوقتیکہ موخر الذکر دونوں اشخاص نماز پڑھنا اور زکوٰۃ نکالنا شروع نہ کردیں۔
Top