Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 76
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمْ : اس نے دیا انہیں مِّنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل بَخِلُوْا : انہوں نے بخل کیا بِهٖ : اس میں وَتَوَلَّوْا : اور پھرگئے وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرنے والے ہیں
لیکن جب خدا نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے۔ اور (اپنے عہد سے) روگردانی کر کے پھر بیٹھے
قول باری فلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ میں منافقین کو سختی سے بھڑکا گیا ہے کہ انہوں نے جس چیز کی نذر مانی تھی اسے بعینہٖ وہ پورا نہ کرسکے۔ یہ بات ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو کسی معین چیز کی نذر ماننے کی صورت میں قسم کا کفارہ لازم کردیتے ہیں اور جس چیز کی نذر مانی ہے بعینہٖ اس چیز کی ادائیگی کے ایجاب کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ قول باری نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق کردینے کے جواز پر بھی دلالت کرتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں شخص آ جائے تو مجھ پر اللہ کے لیے صدقہ یا روزہ ہے۔ یہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جو نذر ملکیت کی طرف نسبت کر کے مانی جائے اس کا ایجاب ملکیت کے نذر ہوتا ہے۔ اگرچہ فی الحال ملکیت موجود نہ بھی ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لا نذر فیما ایملک بن ادم انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اس میں نذر نہیں ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ملکیت کے اندر نذر قرار دیا ہے اور اسے پورا کرنا اس پر لازم کردیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایسی چیز میں نذر جس پر ملکیت نہ ہو یہ ہے کہ مثلاً نذر ماننے والا یہ کہے ۔ اللہ کے لیے میرے ذمہ زید کے کپڑے کو صدقہ میں دینا ہے، یا اسی قسم کا کوئی اور جملہ ۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کسی اجنبی عورت سے کہے اگر میں تجھ سے نکاح کرلوں تو تجھے طلاق وہ گویا اسے نکاح کے اندر طلاق دے رہا ہے۔ نکاح سے پہلے نہیں ۔ جس طرح اپنی نذر کو ملکیت کی طرف نسبت کرنے والا ملکیت کے اندر نذر ماننے والا ہوتا ہے۔ نذر ماننے دے پر نفس نذر کے ایجاب کے سلسلے میں اس آیت کی نظیر یہ قول باری ہے یا یھا الذین امنوا الم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا ً عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون ۔ اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جسے تم کرتے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں ۔ یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ جو بات کہی جائے اسے کر کے بھی دکھایا جائے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا بعینہٖ کہی ہوئی بات نہیں ہے، اسی طرح یہ قول باری ہے۔ تم میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرو میں تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا ۔ نیز ارشاد ہوا یوفون بالنذر وہ نذر پوری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ لوگوں کی اس بنا پر تعریف کی کہ وہ جس چیز کی نذر مانتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ وجعلنا فی قلوب الذین تبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھب نیۃ ابتعوھا ما کتبا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور نرمی رکھ دی تھی اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کرلیا ہم نے ان پر واجب نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اللہ کی رضا مندی کی خاطر سے اختیار کرلیا تھا سو انہوں نے اس کی پوری پوری رعایت نہ کی ابتداع یعنی نئی بات کی ایجاد کبھی قول کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی فعل کے ذریعے ۔ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ انسان تقریب الٰہی اور عبادت کے طور پر قولا ً یافعلا ً جس عبادت کو خود شروع کرلے وہ اس پر واجب ہوجاتی ہے ۔ اس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو ایک عبادت شروع کر کے پھر اسے ترک کردے۔ نذر کے سلسلے میں حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت ہے آپ نے فرمایا من نذر نذرا ً وسماد فعلیہ الوفاء ومن نذر نذرا ً ولم یسمعہ فعلیہ الکفارۃ یمین ۔ جو شخص کوئی نذر مان لے اور اس کا تعین بھی کردے اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے اور جو شخص نذر مانے لیکن اس کا تعین نہ کرے اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوتا ہے۔
Top