Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 97
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اَلْاَعْرَابُ : دیہاتی اَشَدُّ : بہت سخت كُفْرًا : کفر میں وَّنِفَاقًا : اور نفاق میں وَّاَجْدَرُ : اور زیادہ لائق اَلَّا يَعْلَمُوْا : کہ وہ نہ جانیں حُدُوْدَ : احکام مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو احکام (شریعت) خدا نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف (ہی) نہ ہوں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
قول باری ہے الاعذاب اشدکفرا ً ونفاقا ً واجدد الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ ، یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ آیت میں ہدویوں کے بارے میں خبرکومطلق رکھا گیا ہے لیکن اس سے مراد ان کی اکثریت ہے ، یہ وہ لوگ تھے جو منافقین کو کفر اور نفاق پر انگیختہ کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بتایا کہ اس امر کے زیادہ امکانات ہیں کہ یہ لوگ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس لیے کہ انہیں قرآن سننے کے بہت کم مواقع نصیب ہوتے تھے اور حضور ﷺ کی صحبت سے بھی اکثر محروم رہتے تھے اس لیے یہ ان منافقین کی بہ نسبت زیادہ جاہل تھے جو حضور ﷺ کے پاس موجود ہوتے ، ان لوگوں کو قرآن اور احکام الٰہی سننے کے زیادہ مواقع ہاتھ آتے تھے ، اس بنا پر بدوی عرب ان کی بہ نسبت شریعت کے حدود واحکام سے زیادہ ناواقف تھے۔ بدوی لوگ ہمارے زمانے میں بلکہ تمام زمانوں میں احکام و سنن سے پہلے کی طرح ناواقف ہیں اگرچہ اب وہ سب کے سب مسلمان ہیں اس لیے کہ جو لوگ شہری آبادیوں سے دور رہتے ہوں اور علمائے دین کی مجالست انہیں نصیب نہ ہو تو قدرتی طورپر وہ ان لوگوں کی نسبت احکام و سنن سے زیادہ ناواقف ہوں گے جنہیں اس قسم کی مجاست میسرآتی ہو اور احکام شریعت کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہو ۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے نماز میں بدوی کو امام بنانا مکروہ سمجھا ہے۔ درج بالا آیت بدویوں پر کفر اور نفاق کے اسم کا جو اطلاق کیا گیا ہے وہ ان میں سے بعض کے ساتھ خاص ہے۔ اس کا تعلق سب کے ساتھ نہیں ہے اس پر نسق تلاوت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔ ومن الاعراب من یومن باللہ والیوم الاخر ویتخذ ما ینفق قربات عند اللہ وصلوات الرسول اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں تا آخر آیت ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن کا قول ہے کہ صلوٰت الرسول سے مراد بخشش کی وہ دعائیں ہیں جو حضور ﷺ ان کے لیے مانگا کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد خیر و برکت کی وہ دعائیں ہیں جو آپ انہیں دیا کرتے تھے۔
Top