Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 126
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز مُّحِيْطًا : احاطہ کیے ہوئے
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے ابراہیم ؑ اور نبی کریم ﷺ کو دوست بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح دوست برابر ہوتے ہیں، ان کی ملکیت بھی ایک ہی سمجھی جاتی ہے، اسی طرح ابراہیم ؑ اللہ کے خلیل تھے، نہیں بلکہ آسمان و زمین کی ملکیت اب بھی اللہ ہی کے پاس ہے اور ہر شے کا احاطہ بھی اسی کے پاس ہے، یہ تو اس کا فضل و کرم ہے کہ اپنے ان خاص بندوں کو اپنا خلیل قرار دے کر ان کی عزت افزائی فرمائی۔ دلیل چاہو تو ابراہیم ؑ کے والد آذر اور نبی ﷺ کے چچا ابو لہب کا معاملہ دیکھ لو۔
Top