Ahsan-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
یہ غیب کی خبروں سے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پالے گا ؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا (1
44۔ 1 آجکل کے اہل بدعت نے نبی کریم ﷺ کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر اور ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی ﷺ عالم الغیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اس طرح اور ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ) 3:44 سے نبی کریم ﷺ کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے غیر پیغمبر پر نہیں۔
Top