بسم اللہ الرحمن الرحیم
احسن التفاسیر
منزل اول
بعد حمدو صلوۃ کے شائقین تلاوت قرآن کو معلوم ہو کہ معتبر تفسیروں کی روایتوں کے موافق اکثر علماء کے نزدیک قرآن شریف کی قرات سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کا پڑھنا سنت ہے جس کے معنی شیطان مردود کی ہر طرح کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آنے کی التجا کے ہیں۔ اس بات پر تو سب علماء کا اتفاق ہے کہ سورة نمل کی آیتوں میں حضرت سلیمان کے قصہ میں جو بسم اللہ الرحمن الرحیم ایک آیت ہے یا نہیں اس میں سلف کا اختلاف ہے اور حدیثیں دونوں جانب ہیں مگر نماز میں تکبیر اور سورة فاتحہ کے مابین پکار کر بسم اللہ نہ پڑھنے کی حدیثیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں۔ رہی سوا سورة فاتحہ کے اور سورتوں کی بحث اس کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے ابو داؤد میں بسند صحیح جو روایت ہے اس کا حاصل اسی قدر ہے کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت ایک سورة کا ختم اور دوسری سورة کا شروع معلوم ہوجانے کی غرض سے بسم اللہ نازل ہوا کرتی تھی۔ سورة فاتحہ کے مکی یا مدنی ہونے میں سلف کا اختلاف ہے لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ سورة مکی ہے۔ اس سورة سے قرآن شریف کی کتابت شروع ہوتی ہے اور عربی میں افتتاح کے معنی شروع کے ہیں۔ اس لئے اس سورت کو فاتحہ کہتے ہیں۔ اس سورت کے نام اور بھی حدیث میں آگے ہیں مگر یہ نام زیادہ مشہور ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے مصحف میں فاتحہ قل اعوذ رب الفلق اور قل اعوذ برب الناس یہ تین سورتیں نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کو قرآن شریف کی سورتوں میں شمار نہیں کرتے۔ مگر اور سب صحابہ اس کے مخالف ہیں۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن حضرت جبرئیل آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ یکایک انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا کہ آج آسمان کا وہ ایک درواہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا۔ اتنے میں ایک فرشتہ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو سورة فاتحہ اور آمن الرسول سے سورة کے آخر تک ان آیتوں کے نازل ہونے کی خوشخبری سنانے آیا ہوں کہ یہ آیتیں لانے والے ایسے دو نور ہیں کہ آپ سے پہلے کسی نبی پر نازل نہیں ہوئے اس سورة کے اور بھی بہت سے فضائل حدیث شریف میں آئے ہیں۔