Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 26
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ١ؕ وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ اَحْسَنُوا : انہوں نے بھلائی کی الْحُسْنٰى : بھلائی ہے وَزِيَادَةٌ : اور زیادہ وَلَا يَرْهَقُ : اور نہ چڑھے گی وُجُوْهَھُمْ : ان کے چہرے قَتَرٌ : سیاہی وَّلَا ذِلَّةٌ : اور نہ ذلت اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے ھُمْ : وہ سب فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جن لوگوں نے نیکو کاری کی انکے لئے بھلائی ہے اور (مزید برآں) اور بھی اور انکے مونہوں پر نہ تو سیاہی چھائے گی اور نہ رسوائی۔ یہی جنتی ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
66۔ 27۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سوائے جزائے مقررہ کے اپنی طرف سے اور زیادہ انعام بھی عنایت فرمادے گا اگرچہ بعضے مفسروں نے اس زیادہ انعام کی تفسیر کی ہے کہ نیکی کا بدلہ ایک درجہ تک تو جزا ہے دس درجہ سے سات سو درجہ تک ثواب ملنے کا ذکر جو صحیح بخاری و مسلم کی چند روایتوں میں آیا ہے وہی انعام ہے لیکن صحیح تفسیر اس انعام کی وہی ہے جس کا ذکر خاص طور پر صحیح حدیث میں آچکا ہے۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہوجاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرماوے گا کہ کیا تمہارے دل میں کچھ اور زیادہ انعام کی ہوس ہے اہل جنت عرض کریں گے یا اللہ تو نے ہم کو جنت میں داخل کیا ہے یہی ہم کو بڑا انعام ہے اللہ تعالیٰ فرماوے گا ابھی تمہارا انعام باقی ہے یہ فرما کر پھر ان کو اپنے دیدار سے مشرف فرما دے گا۔ جو سب نعمتوں کو بڑھ کر اہل جنت کو ایک نعمت نظر آوے گی۔ صحیح بخاری و مسلم میں جریر بن عبد اللہ ؓ وغیرہ سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے دیدار الٰہی کا ذکر تفصیل سے فرمایا ہے۔ دیدار الٰہی کے ممکن نہ ہونے پر فرقہ معتزلہ نے جو عقلی اعتراض کئے ہیں ان کا جواب اہل سنت نے تفصیل سے دیا ہے کہ جس کی صراحت حدیث کی شرح کی کتابوں اور تفسیر میں ہے ان آیتوں میں مسلمانوں کے منہ پر سیاہی نہ چھانے اور نافرماں بردار لوگوں کے چہروں پر سیاہی اور خواری چھا جانے کا جو تذکرہ ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حساب و کتاب ہوگا اور لوگوں کے سیدھے ہاتھ میں اور الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال دئیے جاویں گے۔ چناچہ معتبر سند سے ترمذی صحیح ابن حبان اور بیہقی میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حساب کے وقت ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کے روبرو بلوایا جاوے گا جس کے سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جاوے گا اس کے منہ پر رونق آجاوے گی اور جس کے الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جاوے گا اس کے منہ پر سیاہی اور خواری چھاوے گی اس حدیث سے چہروں پر رونق کے آجانے اور سیاہی کے چھا جانے کا وقت اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔
Top