Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 28
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ١ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُھُمْ : ہم اکٹھا کرینگے انہیں جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اَشْرَكُوْا : جنہوں نے شرک کیا مَكَانَكُمْ : اپنی جگہ اَنْتُمْ : تم وَشُرَكَآؤُكُمْ : اور تمہارے شریک فَزَيَّلْنَا : پھر ہم جدائی ڈال دیں گے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان وَقَالَ : اور کہیں گے شُرَكَآؤُھُمْ : ان کے شریک مَّا كُنْتُمْ : تم نہ تھے اِيَّانَا : ہماری تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے
اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے اور انکے شریک (ان سے) کہیں گے کہ تم ہم کو تو نہیں پوجا کرتے تھے۔
28۔ پہلے صور کے ساتھ سب دنیا فنا ہو کر دوسرے صور کے ساتھ سب قبروں سے ننگے پنڈے ننگے پاؤں جو اٹھیں گے اور شام کے ملک کے ایک صاف میدان میں حساب کے لئے جمع ہوں گے یہ اس وقت کا حال ہے اسی وقت آفتاب نیچا ہوگا اور شدت کی گرمی ہو کر لوگوں کو اپنے اپنے اعمال کے موافق پسینا آوے گا کسی کو ٹخنوں تک اور کسی کو گھٹنوں تک اور کوئی اپنے پسینے میں غوطے کھاوے گا اور چالیس برس تک لوگ اسی حال میں حساب کے منتظر کھڑے رہیں گے اس حال سے لوگ یہاں تک اکتاویں گے کہ کہیں گے خیر ہمارا حساب ہو کہ ہم دوزخ میں ہی بھیج دئیے جاویں۔ آفتاب جو نیچا ہوگا اس کی مقدار کی بابت مقداد ؓ کی روایت سے مسلم کی حدیث میں یہ ہے کہ لوگوں کے سروں سے صرف ایک میل اونچا رہ جاوے گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے موت کا دن اس پر بڑا سخت ہے۔ مگر موت کے بعد کی گھاٹیاں موت سے بھی زیادہ سخت ہیں اور اس حشر کے دن کو بھی آپ نے ان سخت گھاٹیوں میں سے گنا ہے۔ یہ روایت انس بن مالک ؓ سے مسند امام احمد میں ہے اور اس کی سند معتبر ہے اسی دن کی سختی سے لوگ گھبرا کر سب انبیاء کے پاس اس سفارش کے لئے جاویں گے کہ ان کا حساب و کتاب جلدی شروع ہو آخر آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے حساب شروع ہوگا۔ جس نے کسی پر کچھ ظلم زیادتی کی ہے اس کا بدلہ اسی میدان میں ہوگا معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اس کا ذکر ہے اسی انصاف کے وقت اللہ تعالیٰ بتوں کو مجرموں کی طرح کھڑے رہنے کا حکم دیوے گا اور وہ اپنی پرستش کئے جانے کا انکار کریں گے جس کا ذکر اس آیت میں ہے حساب و کتاب شروع ہوتے ہی پہلے فقیر اور مسکین دیندار کو آواز دی جاوے گی اور مال دار لوگوں سے پانسو برس پہلے ان کو جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوجاوے گا مالدار لوگ اپنے مال کے حساب میں لگے رہیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میدان حشر میں لوگوں کا پسینا اس قدر جمع ہوگا کہ اس میں کشتیاں چلاؤ تو چل سکیں گے معتبر سند سے مسند امام احمد میں انس بن مالک ؓ کی روایت سے اس کا ذکر ہے حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حشر کے دن مرد و عورت سب اٹھیں گے تو ایک دوسرے کو ننگا دیکھیں گے آپ نے فرمایا اس دن کی سختی سے ایسی بد حواسی ہوگی کہ کوئی کسی کی طرف نہ دیکھے گا۔ حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث صحیح بخاری معتبر سند سے اوسط طبرانی میں ہے نمرود نے آگ میں ڈالتے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کیا تھا اس لئے سب سے پہلے ان کو اس دن کپڑے پہنائے جاویں گے۔ چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت میں اس کا ذکر ہے۔ دیندار مسلمانوں کو یہ دن ایسا معلوم ہوگا جیسا ایک فرض نماز کے ادا کرنے میں وقت لگتا ہے یا قریب غروب آفتاب اور مغرب کے وقت شروع ہونے میں جتنی دیر لگتی ہے صحیح ابن حبان مسند ابی یعلی اور مسند امام احمد میں معتبر سند ہے ابوہریرہ ؓ اور ابو سعید خدری ؓ کی روایتیں ہیں ان میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے اگرچہ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ تنگدست دیندار مال داروں سے چالیس برس پہلے جنت میں جاویں گے لیکن پانسو برس کی ابوہریرہ ؓ کی روایت ترمذی میں ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ مشرکوں اور ان کے جھوٹے معبودوں سے جب یہ سوال و جواب ہوں گے اور یہ جھوٹے معبود اپنی پرستش کرنے والوں سے بیزاری ظاہر کریں گے تو ان مشرکوں کا دل یہاں تک جلے گا کہ یہ لوگ دوبارہ دنیا میں آنے اور اپنے جھوٹے معبودوں سے بیزاری کا برتاؤ کرنے کی تمنا ظاہر کریں گے لیکن یہ بےوقت کی تمنا ان کی کچھ مفید نہ ہوگی حاصل یہ ہے کہ سورة بقر کی آیت { اذ تبر الذین اتبعوا من الذین اتبعوا۔ (2: 166)} گویا اس آیت کی تفسیر ہے حاصل اس تفسیر کا یہ ہے کہ اب دنیا میں یہ مشرک لوگ جن جھوٹے معبودوں کی بڑی رغبت سے پوجا کرتے ہیں حشر کے دن یہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجاویں گے اور اس دن تمام خلق اللہ کے روبرو انہیں اس غلط پوجا سے پچھتانا پڑے گا لیکن وہ بےوقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا { فزیلنا بینھم } کی تفسیر سلف نے نفرقنا بینھم کی ہے جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ ان مشرکوں اور ان کے جھوٹ معبودوں میں ایسی پھوٹ پڑجاوے گی کہ یہ آیس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجاویں گے۔
Top