Tafseer-e-Madani - Yunus : 40
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهٖ١ؕ وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يُّؤْمِنُ : ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) لَّا يُؤْمِنُ : نہیں ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَرَبُّكَ : تیرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
اور ان میں سے کچھ تو اس پر ایمان لے آئیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے، اور تمہارا رب خوب جانتا ہے فساد مچانے والوں کو،
75 ۔ منکرین کے امہال کی وجہ کا ذکر وبیان : سو منکرین کے امہال کے سبب اور اس کی وجہ سے ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن پر ایمان لا رہے ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں کچھ صالح عناصر ایسے موجود ہیں جن سے خیر کی توقع ہوسکتی ہے، سو اس کا تقاضا ہے کہ ان کو اتنی ڈھیل دی جائے کہ ایسے صالح عناصر ان سے چھٹ کر الگ ہوجائیں اور وہ کچرا الگ ہوجائے جو آتش دوزخ میں جھونکے جانے کے لائق ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ " یومن بہ " میں حال اور مستقبل دونوں کا احتمال ہے، یعنی ان میں سے کچھ اس پر ایمان رکھتے ہیں یا ایمان لائیں گے۔ چناچہ ایسے ہی ہوا، پس یہ قرآن پاک کی ایک پیشینگوئی ہوئی جو بعد میں پوری ہوگئی اور دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے اور مفسرین کرام نے اس کو بھی بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے کچھ اس پر دل سے ایمان رکھتے ہیں اور اس کو سچا جانتے ہیں، مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر وہ اس کا انکار کرتے ہیں، یعنی " یومن " حال کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل کے معنی میں بھی۔ اور " بہ " کی ضمیر مجرور میں دو احتمال ہیں کہ اس کا مرجع قرآن ہو یا پیغمبر، دونوں صورتوں میں اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ دل سے تو ان کو سچا جانتے اور ان پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ظاہر میں انکار اور تکذیب سے کام لے رہے ہیں، محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر یا آئندہ ایمان لائیں گے یا یہ اس پر اس وقت ایمان لائیں گے جبکہ اپنے انجام اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، یہ سب ہی صورتیں اس کے مطلب میں بنتی ہیں یہ سب ہی مراد ہوسکتی ہیں اور یہ سب ہی حضرات اہل علم و فضل سے مروی و منقول ہیں۔ ( المراغی، المدارک، الفتح وغیرہ) اور ان سب ہی میں معنی و مطلب صحیح بنتا ہے۔ واللہ اعلم۔ 76 ۔ فسادیوں کے لیے محرومی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور ان میں سے کچھ اس پر ایمان نہیں رکھتے اور ایمان لانے کی بجائے ایسے لوگ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں محض اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر۔ سو ہٹ دھرمی باعث محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس یہ لوگ محروم ہوگئے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کہ میں نہ مانوں (I Never Agree) کا تو کوئی علاج ہی نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ضد وعناد اور ہٹ دھرمی سراسر خسارہ اور باعث محرومی ہے۔ پس ایسے لوگ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر نور ایمان سے محرومی کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (ابن کثیر اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ بہرکیف جب ان کی کیفیت یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ایمان لانے والے ہیں اور کچھ نہیں تو اس بناء پر ان سب کو ڈھیل ملی ہوئی ہے۔ تاکہ اس مجموعے میں جتنا مکھن ہے وہ نکل آئے اور چھاچھ الگ ہوجائے۔ مگر یہ حقیقت واضح اور ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ جو لوگ کفر و شرک کے ذریعے فساد پھیلا رہے ہیں وہ اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہیں گے۔ اور اپنے عذاب سے وہ بچ نہیں سکیں گے۔ اسی لیے ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارا رب ایسے فسادی عناصر اور منابع شر و فساد کو پوری طرح جانتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس لئے کہ لوگ اپنے کئے کرائے کے نتیجہ وانجام سے نہیں بچ سکیں گے۔
Top