Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اگر ہم کوئی عذاب جس کا ان لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے (نازل) کریں یا (اس وقت جب) تمہاری مدت حیات پوری کردیں تو ان کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کچھ یہ کر رہے ہیں خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
46۔ 47۔ مشرک لوگ عذاب کا وعدہ سن کر اس وعدہ کے ظہور کی جلدی کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی کے طور پر فرمایا کہ اے رسول اللہ ہم تمہارے سامنے ان کافروں کو غارت کردیں اور ان کے کردار کی سزا اسی دنیا میں تمہاری حیات ہی میں ان کو دیں یا ان کو اسی حال پر چھوڑ کر تمہیں اپنے پاس بلا لیں بہرحال یہ لوگ ایک دن ہمارے روبرو حاضر ہونے والے اور اپنی بد اعمالی کی سزا بھگتنے والے ہیں کیوں کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کو معلوم ہے۔ ذرہ ذرہ کا ایک دن مواخذہ ہوگا معتبر سند سے طبرانی میں ابو امامہ ؓ اور حذیفہ ابن اسید ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت ﷺ نے فرمایا کہ آج رات کو میری کل امت اول سے آخر تک مجھے دکھلا دی گئی ایک شخص نے کہا کہ جو آپ کی امت میں پیدا ہوچکے ہیں وہ تو خیر اور جو نہیں پیدا ہوئے ہیں انہیں کیسے آپ نے جانا فرمایا کہ جس طرح تم اپنے دوست احباب ہر ایک ملنے جلنے والے کو پہچانتے ہو اسی طرح میں ان کو پہچانتا ہوں 1 ؎ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعضائے وضو کے نور سے امت کو میں نے بن دیکھے لوگوں کی پہچان اللہ کے رسول کو ہوگی۔ 2 ؎ اسی طرح ابو امامہ ؓ کی طبرانی کی حدیث 3 ؎ میں اس کی صراحت ہے۔ مجاہد ؓ کہتے ہیں کہ ہر ایک رسول کی امت کا قیامت کے دن اس کے رسول کے سامنے فیصلہ کیا جاوے گا اور اللہ پاک نہایت ہی عدل اور انصاف کے ساتھ حکم نافذ فرمائے گا نامہ اعمال سامنے رکھا ہوگا وہ بتلا دے گا کہ کس کے اعمال کیسے ہیں اور نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتے بھی گواہی دیں گے ہر ایک امت ایک کے بعد ایک آتی جائے گی اور اس کا حساب و کتاب ہوتا جائے گا۔ حضرت رسول مقبول ﷺ کی امت اگرچہ سب امتوں سے پیچھے پیدا ہوئی ہے مگر اس کا حساب و کتاب سب سے پہلے ہوگا اور اس کے حساب و کتاب میں اتنا عرصہ بھی نہ ہوگا جتنا اوروں کے حساب میں ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم میں جو روایتیں ہیں ان میں یہ ذکر صراحت سے ہے کہ امت محمدیہ کا حساب اور امتوں سے پہلے ہوگا۔ 4 ؎ بلکہ صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے یہ بھی ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کا گزر پل صراط پر بھی اور امتوں سے پہلے ہوگا۔ 5 ؎ معتبر سند سے طبرانی کبیر اور اوسط میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت 6 ؎ ہے جس میں امت محمدیہ کے حساب کے جلدی طے ہوجانے کا ذکر تفصیل سے ہے۔ اوپر یہ جو گزرا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی سب امت کو دیکھا کہ یہ قصہ معراج کی رات کا ہے۔ چناچہ ترمذی اور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی جو روایتیں 7 ؎ ہیں ان میں معراج کی رات کا ذکر ہے اگرچہ یہ کل امت کے دیکھنے کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ لیکن وہ مختصر ہے اس میں معراج کی رات کا ذکر نہیں ہے۔ 8 ؎ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں حضرت حذیفہ ؓ کی روایت ہے لیکن اس میں ایک راوی کذاب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری سب امت جنت میں جاوے گی مگر جو مجھ کو نہ مانے گا وہ دوزخ میں جاوے گا۔ صحابہ نے عرض کیا حضرت وہ کون لوگ ہیں آپ نے فرمایا جو میری اطاعت نہیں کرتے۔ 9 ؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور امتوں سے پہلے حساب کے ہونے اور پل صراط پر سے پہلے گزرنے کی عزت امت محمدیہ کے ان ہی لوگوں کو دی جاوے گی جو اللہ کے رسول کے پورے فرمانبردار اور ہر طرح کی بدعت سے بیزار ہیں۔ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے روایتیں جو سورة النساء میں گزر چکی ہیں۔ 10 ؎ ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے کہ ہر امت کا فیصلہ ان کے رسول کے سامنے خدا ﷺ اور مقابلہ میں ہوگا اور ان روایتوں سے مجاہد کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ 1 ؎ مجمع الزوائد ص 69 ج 10 باب 1 ما جاء فی فضل الامۃ 2 ؎ صحیح مسلم ص 126 ج 1 باب الستحباب الحالۃ الغرۃ الخ۔ 3 ؎ مجمع الزوائد ص 408۔ 409 ج۔ 1 باب فیمن یدخل الجنۃ بغیر حساب۔ 4 ؎ تفسیر ابن کبیر ص 419 ج 2۔ 5 ؎ مشکوۃ 490 باب الحوض والشفاغۃ۔ 6 ؎ مجمع الزوائد ص 69 ج 10 باب ماجاء فی فضل الامۃ۔ 7 ؎ فتح الباری ص 181 ج 6 باب یدخل الجنۃ سبعون الغابغیر حساب۔ 8 ؎ صحیح بخاری ص 968 ج 2 باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب۔ 9 ؎ صحیح بخاری ص 1081 ج 2 باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ ۔ 10 ؎ تفسیر ہذا 321 ج 1۔
Top