Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 53
وَ یَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ١ؔؕۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠   ۧ
وَيَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں اَحَقٌّ : کیا سچ ہے ھُوَ : وہ قُلْ : آپ کہ دیں اِيْ : ہاں وَرَبِّيْٓ : میرے رب کی قسم اِنَّهٗ : بیشک وہ لَحَقٌّ : ضرور سچ وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم ہو بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
اور تم سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا یہ سچ ہے ؟ کہہ دو ہاں خدا کی قسم سچ ہے۔ اور تم (بھاگ کر خدا کو) عاجز نہ کرسکو گے۔
53۔ مشرک لوگ یہ بھی پوچھتے تھے کہ کیا سچ مچ قیامت ہوگی اور اس کے انکار کرنے والوں کو عذاب ہوگا حالانکہ وہ لوگ یہ سوال پہلے بھی کرچکے تھے اور اس کا جواب بھی ان کو دے دیا گیا تھا پھر بار بار پوچھنا اور بھی نادانی کی نشانی ہے نہ اپنی بات سمجھتے ہیں کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں نہ دوسرے کی بات سمجھتے ہیں کہ وہ کیا جواب دے رہا ہے اس لئے فرمایا اے رسول اللہ ﷺ کہ تم ان لوگوں سے کہہ دو قسم خدا کی قیامت ضرور ہونے والی ہے تم یہ نہ خیال کرو کہ ہم مٹی کے ڈھیر ہو کر پھر قبر سے کیوں کر نکل آئیں گے وہ دوبارہ پیدا کرسکتا ہے جس طرح اس نے پہلے پیدا کیا ہے اس کا ایک فقط کن کا حکم کافی ہے پھر اگر تم بھاگنا بھی چاہو گے تو رستہ نہ ملے گا نہ کوئی حیلہ حوالہ پیش ہو سکے گا بلکہ عذاب ہو کر رہے گا۔ ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ابو سعید خدری ؓ سے اور مسند امام احمد وغیرہ میں زید بن ارقم ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسرافیل (علیہ السلام) صور منہ میں لے کر پھونکنے کو تیار اور ہر وقت حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔ ترمذی نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے۔ 1 ؎ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کیوں کہ آیت اور حدیث کو ملانے سے یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تاکید کے طور پر اپنے رسول کو قسم کھا کر قیامت کے وعدہ کا ارشاد فرمایا ہے اسی طرح قیامت کے ظہور کا انتظام بھی ایسا تاکیدی ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) صور منہ میں لے کر پھونکنے کو تیار اور ہر وقت حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔ 1 ؎ جامع ترمذی ص 192 ج 2 ابواب الدعوات۔
Top