Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
83۔ آنحضرت ﷺ کو اس بات کا بھی رنج رہتا تھا کہ نبی ہونے کے بعد تیرہ برس آپ مکہ میں رہے اور صرف کچھ کم سو آدمی مسلمان ہوئے آپ چاہتے تھے کہ اسلام جلدی جلدی زور پکڑے اور جھٹ پٹ مسلمانوں کی ایک بڑی سی جماعت قائم ہوجاوے اللہ تعالیٰ نے اس قصہ سے آپ کی تسکین فرمائی کہ یہ کچھ رنج کرنے کی بات نہیں ہے منکروں کے دل بڑی مشکل سے پھرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا ایسا بڑا معجزہ قبطیوں نے دیکھا کہ جادوگر سب ہار گئے مگر قبطیوں میں سے چند ہی آدمی مسلمان ہوئے اگرچہ بعضے مفسروں نے آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ بنی اسرائیل میں سے تھوڑے لوگ مسلمان ہوئے اور حافظ ابو جعفر ابن جریر ؓ نے اپنی تفسیر میں ان ہی معنوں کو ترجیح دی ہے لیکن حافظ ابن کثیر کے نزدیک صحیح معنے یہی ہیں کہ آیت میں اس کی قوم سے فرعون کی قوم قبطی لوگ مراد ہیں۔ 1 ؎ قوم موسیٰ (علیہ السلام) مراد نہیں ہے کیونکہ بنی اسرائیل تو سوا قارون اور چند لڑکوں کے اور سب مسلمان ہوگئے تھے پھر یہ بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے چند ہی شخص ایمان لائے جس طرح اس آیت سے آگے کی آیت میں توکل کا ذکر ہے اسی طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عبادت کے ساتھ توکل کا اکثر ذکر فرمایا ہے جیسے { ان کنتم امنتم باللّٰہ فعلیہ توکلوا (10: 84} اور { ھوالرحمن امنا بہ وعلیہ توکلنا (65: 29} اور { ہو توکل علیہ (12: 23} اور { ایاک نعبد وایاک نستعین } ابن ماجہ میں عمرو بن العاص ؓ کی روایت سے جو حدیث ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ آدمی کے دل میں طرح طرح کے خیال سمائے رہتے ہیں جو اللہ پر توکل کرے وہ سب خیال پر غالب آسکتا ہے اور جو توکل نہ کرے گا معلوم نہیں کون سا خیال اس کو ڈبو دے گا 2 ؎ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن آیت { ومن یتوکل علی اللّٰہ فھو حسبہ (65: 3)} سے اس حدیث کی پوری تائید ہوتی ہے حاصل معنے حدیث کے یہ ہوئے کہ جب تک میں اللہ پر بھروسہ نہیں دل گویا ڈاواں ڈول ہے اور ڈاواں ڈول حالت کو ایمان اور عبادت کا کیا ٹھکانا ہے کیونکہ ڈاواں ڈول حالت کے ایمان والا شخص اعتقادی منافق ہے ڈاواں ڈول حالت کی عبادت والا شخص عملی منافق ہے۔ اعتقادی منافق وہ ہے جس کا اعتقاد احکام شرع پر پورا نہ ہو اور عملی منافق وہ ہے جس کے عمل احکام شرع کے موافق نہ ہوں غرض اس ڈاواں ڈول حالت کو رفع فرمانے کی غرض سے نصیحت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عبادت کے ساتھ جگہ جگہ توکل کا ذکر فرمایا ہے کہ ایمان اور عبادت خالص ہو اسی واسطے اہل توکل کا درجہ بھی بڑا ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن صاحب توکل لوگ ستر ہزار میری امت میں سے بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے یہ درجہ جس کو اللہ دیوے اس کو ملتا ہے چناچہ جس روز آپ نے یہ حدیث بلا حساب جنت میں داخل ہونے کی فرمائی اس روز ایک صحابی عکاشہ بن محصن ؓ نے کہا کہ حضرت میرے واسطے دعا کیجئے کہ اللہ مجھ کو ان میں سے کردیوے آپ نے دعا فرمائی پھر ایک صحابی سعد بن عمارہ ؓ نے کہا حضرت میرے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا اب تو عکاشہ بازی لے جا چکا۔ 3 ؎ توکل کے معنے کسی پر بھروسہ رکھنے کے ہیں عبادت کے وقت اللہ پر بھروسہ رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی عبادت کے وقت اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور اس عبادت کے ثواب کا بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھ کر عبادت کرے۔ عقبیٰ کے ثواب اور دنیا کے دکھاوے دونوں کو دل میں رکھ کر ڈاواں ڈول نہ ہو کہ ایسی عبادت رائیگاں ہے چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر ؓ کی حدیث ایک جگہ گزرچکی کہ آدمی عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر یہ مرتبہ میسر نہ آوے تو یہ خیال رفع تکلیف کرے بھی تو رفع تکلیف کا اصل بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھے 3 ؎ جیسا کہ صحیح مسلم میں جابر ؓ کی حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر مرض کی دوا ہے مگر دوا میں شفا کی تاثیر کا دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لمن المسرفین کے ترجمہ میں شاہ صاحب نے یہ جو لکھا ہے کہ اس نے ہاتھ چھوڑ رکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون لوگوں پر طرح طرح کی دست درازی کرتا تھا چناچہ اس کو جب اپنی بی بی آسیہ کے اسلام کا حال معلوم ہوگیا تو اس نے چار میخیں زمین میں گاڑ کر آسیہ کے ہاتھ پاؤں ان میخوں سے باندھ دئیے اور طرح طرح سے مار پیٹ کی۔ 4 ؎ جس کا ذکر معتبر سند سے بیہقی اور مسند ابو یعلی میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 117 ج 1 باب الدلیل علے دخول طوائف من المسلمین الجنۃ الخ۔ 2 ؎ صحیح مسلم ص 25 ج 1 کتاب الایمان۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 387 کتاب الطب۔ 4 ؎ تفسیر فتح البیان ص 608 ج 4 تفسیر سورة تحریم۔
Top