Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 35
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ
اَلْهٰىكُمُ : تمہیں غفلت میں رکھا التَّكَاثُرُ : کثرت کی خواہش
(لوگو ! ) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کردیا
1۔ 8۔ صحت بدن ‘ وقت پر غذا کا ملنا ‘ ٹھنڈے پانی کا ملنا ‘ اس طرح سب چیزیں جن پر آدمی کی زیست کا مدار ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو کام میں لاتے ہیں اور اطاعت الٰہی سے غافل ہیں اور رات دن زیادتی مال اور اولاد کی حرص ہو ہوس میں ان لوگوں کی زیست کٹتی ہے اس ساری سورة میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ آدمی کے پیچھے موت ایسی لگی ہوئی ہے کہ مرتے دم تک بھی آدمی مال اور اولاد کی ہوس میں لگا رہے تو بھی دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب چھوڑ جانے کی چیزیں ہیں۔ جو لوگ ان چھوڑ جانے کی چیزوں میں اس طرح مصروف رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری سے غفلت کریں گے قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کام میں لانے کی جواب دہی مشکل ہوجائے گی۔ صحیح 1 ؎ مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے دیدار الٰہی اور حساب و کتاب کی ایک بہت بڑی حدیث ہے اور اس حدیث کا ایک ٹکڑا گویا اس سورة کی تفسیر ہے۔ حاصل اس ٹکڑے کا یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں صاحب نعمت اور اللہ کے رو برو کھڑے ہونے اور حساب و کتاب سے غافل ہیں۔ اس طرح کے لوگوں میں سے ہر ایک شخص کا حساب و کتاب یوں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ اے شخص کیا میں نے تجھ کو دنیا میں عزت دار مال دار اور ہر طرح کے صاحب نعمت نہیں پیدا کیا تھا۔ جب یہ شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس خدا نے ان نعمتوں کو پیدا کیا تھا اس کی پیدا کی ہوئی نعمتوں کو برت کر اس خدا کی یاد بھی تو نے کچھ دل میں رکھی تھی ؟ یہ شخص جب اس سوال کا جواب پورا نہ دے سکے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دنیا میں جس طرح سونے میری یاد کو بھلا دیا اسی طرح میں نے بھی آج اپنی رحمت سے تجھ کو محروم کردیا اور بھلا دیا۔ اگرچہ علماء 2 ؎ مفسرین کے نزدیک مشہور قول یہی قرار پایا ہے کہ یہ سورة مکی ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ سورة مدنی ہے کیونکہ ترمذی 3 ؎ میں حضرت علی ؓ کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کو عذاب قبر کی تصدیق ہوئی ہے اور حضرت عائشہ کی صحیحین 1 ؎ کی حدیث یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ایک یہودیہ نے عذاب قبر کا ذکر کیا۔ اس وقت سے آنحضرت ﷺ نے عذاب قبر سے نجات کی دعا ہر نماز کے بعد مانگنی شروع کی اور فرمایا ہاں عذاب قبر حق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر یہ سورة مکی ہوتی اور عذاب قبر کی تصدیق مکہ میں صحابہ ؓ کو اس سورة کے نازل ہونے سے ہوچکی ہوتی تو مدینہ میں عذاب قبر کا اس طرح سے نیا ذکر کیوں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ تعلیم امت کے لئے ہر نماز کے بعد نجات عذاب قبر کی دعاء مانگتے اور یہ فرماتے کہ ہاں عذاب قبر حق ہے۔ تفسیر 2 ؎ ابن ابی حاتم میں ابن بریدہ سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبیلوں نے کچھ حسب و نسب کے فخر کی باتیں کی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اس شان نزول سے بھی یہ سورة مدنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ انصار مکہ میں کہاں تھے۔ (1 ؎ صحیح مسلم۔ کتاب الزھد ص 409 جلد 2۔ ) (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 386 جلد 6۔ ) (3 ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة التکاثر ص 194 جلد 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخایر باب ماجاء فی عذاب القبر الخ ص 183 ج 1۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 544 ج 4)
Top