Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 103
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ١ؕ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّمَنْ خَافَ : اس کے لیے جو ڈرا عَذَابَ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا عذاب ذٰلِكَ : یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّجْمُوْعٌ : جمع ہوں گے لَّهُ : اس میں النَّاسُ : سب لوگ وَذٰلِكَ : اور یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّشْهُوْدٌ : پیش ہونے کا
ان (قصوں) میں اس شخص کے لئے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کئے جائیں گے۔
103۔ انبیائے سابق اور ان کی امتوں کے ذکر کے دو فائدہ تو اوپر مذکور ہوچکے یہ تیسرا فائدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے حاصل اس فائدہ کا یہ ہے کہ کافر اور منافق کے دل تو ایسے سخت ہوگئے ہیں کہ ان کے دل پر کسی نصیحت کا اثر نہیں ہے ہاں جو لوگ اللہ اور رسول اور قیامت کے قائم ہونے پر ایمان لا چکے ہیں ان پچھلے قصوں سے ان کو ایک بڑی عبرت ہونی چاہیے کس واسطے کہ پچھلی امتوں کا دنیا کا عذاب سن کر پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ کے وعدہ کا ظہور جس طرح دنیا میں ہوچکا اسی طرح آخرت کے عذاب کا اس کا وعدہ سچا ہے اور ضرور ایک مقرر دن پر اس کا ظہو ہونے والا ہے اس وعدہ کے دن کے لئے کچھ نیکی کرنی چاہیے تاکہ اس روز چھٹکارہ ہو کیوں کہ جس طرح اس دن کے آنے کا وعدہ حق ہے اسی طرح اس دن کا یہ وعدہ بھی حق ہے کہ جس کا نیکی کا پلہ اس دن بھاری ہوگا اسی کو چھٹکارہ ہوگا پھر اس چھٹکارہ کی صورت بدوں نیکی کے کرنے اور بدی سے بچنے کے کیوں کر ممکن ہے۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب بدی کا بدلہ ایک اور نیکی کا بدلہ دس ہے تو ایسے شخص کے حال پر بڑا افسوس ہے جو دنیا سے ایسی حالت میں جاوے کہ اس کی اکائیاں دہائیوں پر غالب ہوں۔ ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں ابوہریرہ، ابی بکرہ، جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن بسر ؓ سے صحیح روایتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں اچھا آدمی وہی ہے کہ جس کی عمر بڑی ہو اور اس کے عمل نیک ہوں اور برا آدمی وہ ہے کہ جس کی عمر بڑی ہو اور کام برے اور بد 1 ؎ ہوں۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابوہریرہ ؓ کی دوسری روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت طلحہ ؓ کے گھر میں تین مہاجر صحابہ رہتے تھے دو ان میں سے شہید ہوگئے اور ایک ان دونوں شہیدوں کے بہت روز کے بعد اپنی موت سے مرے۔ طلحہ ؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ تیسرا شخص جو اپنی موت سے مرا تھا جنت میں ان دونوں شہیدوں کے آگے ہے۔ اس خواب سے مجھ کو بڑا تعجب ہوا میں نے اپنا یہ خواب آنحضرت ﷺ سے تعجب کے ساتھ بیان کیا آپ نے فرمایا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے نیک عمل ہو کر کوئی شخص بڑی عمر پاوے تو یہ بڑے اجر درجہ کی چیز 2 ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلما نوں کے حق میں یہ ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت زیادہ کار گر ہوتی ہے جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ ذرا اپنی حالت پر غور کریں کہ ان کی حالت پر کہاں تک اللہ کی پیشین گوئی صادق آتی ہے اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عمر دی ہے وہ اس کو ایک دولت سمجھ کر اس دولت سے یہ تجارت کریں کہ اس دولت سے نیک عمل کی دولت کمائیں۔ ذلک کا اشارہ قیامت کے دن کی طرف ہے آیت کے اس ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ میدان محشر میں آدم (علیہ السلام) سے قیامت تک جتنے بنی آدم پیدا ہوئے ہیں وہ سب حساب و کتاب کے لے جمع کئے جاویں گے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی روایت 3 ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے اسی طرح کے انتظام کے لئے وہاں فرشتے بھی حاضر ہوں گے مثلاً ستر ہزار نکیلیں لگا کر ہزارہا فرشتے دوزخ کو میدان محشر میں لاویں گے جس کا ذکر صحیح مسلم اور ترمذی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت 4 ؎ سے ہے۔ اور اسی طرح کے بہت سے انتظام ہیں جو اس دن فرشتوں کے ذمہ ہوں گے۔ انسان جنات اور فرشتوں کے جمع ہوجانے سے وہ ایک عجب دن ہوگا اس لئے شاہ صاحب نے مرادی ترجمہ وہ ” دن ہے دیکھنے کا “ فرمایا ہے۔ ( 1 ؎ جامع ترمذی ص 56 ج 2 باب ماجانء فی طول العمر للمومن و تفسیر ہذا جلد دوم ص 261 ) (2 ؎ مجمع الزوائد ص 204 ج 2 باب فیمن طال عمرہ من المسلمین۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری ص 65۔ 9 ج 2 باب کیف الحشر۔ ) (4 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفتہ النار واہلہا۔ )
Top