Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 108
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو سُعِدُوْا : خوش بخت ہوئے فَفِي الْجَنَّةِ : سو جنت میں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب عَطَآءً : عطا۔ بخشش غَيْرَ مَجْذُوْذٍ : ختم نہ ہونے والی
اور جو نیک بخت ہوں گے ہے بہشت میں (داخل کئے جائیں گے اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ کہ خدا کی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔
108۔ جس طرح وہاں اوپر بدبختوں کا حال بیان کیا یہاں نیک بختوں کا حال بیان فرمایا کہ جو لوگ نیک بخت ہیں رسولوں کی پیروں کی دین حق کو قبول کیا ان کے واسطے جنت ہے جب تک آسمان و زمین وہاں کے رہیں گے یہ لوگ جنت میں رہیں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ جنت ہی میں رہیں گے پھر وہاں سے نکلنا کیسا بلکہ ان پر ایسی بخشش ہوگی جس کی کوئی انتہا ہی نہیں صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب کل مخلوقات کا حساب و کتاب ہوجائے گا اور جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جاویں گے تو موت بلائی جائے گی وہ ایک بھیڑ کی صورت میں آئے گی۔ اس کو ذبح کر کے کہا جائے گا کہ اے جنت والو اب موت نہیں ہے اب تم ہمیشہ جنت میں رہو اور اے دوزخ والو اب موت نہیں ہے تم ہمیشہ دوزخ میں 1 ؎ رہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی حدیثوں کے موافق جب تمام کلمہ گو دوزخ سے نکل کر جنت میں جا چکیں گے اس وقت موت کو ذبح کیا جاوے گا کیوں کہ صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری ؓ کی شفاعت کے باب میں جو ایک بڑی حدیث ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب شفاعتوں کے ختم ہوجانے کے بعد جن دوزخیوں کو اللہ تعالیٰ اپنی لپ بھر کر دوزخ سے نکالے گا وہ مر کر کوئلہ ہوجاویں گے اور نہر حیات میں ڈالنے سے زندہ ہوجاویں گے اور پھر جنت میں داخل 2 ؎ جاویں گے۔ چناچہ صحیح مسلم کی ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں ان لوگوں کے مرجانے کا صاف ذکر آیا 3 ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی حدیثوں میں اور عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں کچھ مخالفت نہیں ہے اوپر کی حدیثیں شفاعت کے وقت کی ہیں اور عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں موت کے ذبح کئے جانے اور دوزخیوں کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا ذکر ہے وہ سب شفاعتوں کے ختم ہوجانے کے بعد کا ہے۔ غرض عبد اللہ بن عمر ؓ کی اس حدیث سے معتزلی فرقہ کا یہ مطلب کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ گنہگار کلمہ گو ابھی دوزخ میں ہی ہوں گے اور اس حالت میں موت کو ذبح کیا جا کر دوزخیوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنے کا حکم ہوجاوے گا کیوں کہ یہ مطلب انس بن مالک ؓ کی اوپر کی صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث کے بر خلاف ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی گنہگار کلمہ گو ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے 4 ؎ گا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 969 ج 2 باب صفتۃ الجنتہ والنار۔ 2 ؎ صححذ بخاری ص 1107 ج 2 باب وجوہ یوئمنذ فاخرۃ الی ربہا ناظرۃ۔ 3 ؎ صحیح مسلم ص 104 ج 1 باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار۔ 4 ؎ صحیح مسلم ص 110 ج 1 باب اثبات الشفاعۃ الخ۔
Top