Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔
118۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ میں یہ بھی قدرت ہے کہ سارے جہان کو ایک ہی دین پر رکھتا سب کے سب دیندار رہتے مگر خدا کی مرضی نہ ہوئی کیوں کہ دنیا کو اس نے نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے زبردستی دیندار بنانے کے لئے نہیں پیدا کیا اس لئے لوگ الگ الگ فرقے فرقے ہوگئے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ہمیشہ مختلف رہیں گے کوئی نصاریٰ کوئی یہود کوئی مجوس کوئی مشرک اسی طرح اپنی اپنی عقل کے موافق الگ الگ مذہب قائم کریں گے ترمذی ابوداؤد ابن ماجہ میں ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہود اکہتر فرقے ہوگئے اور نصاریٰ بہتر فرقے ہوئے اور امت محمد یہ تہتر فرقے ہوں گے ان تہتر فرقوں میں سے بہتر فرقے دوزخ میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا حاکم کی معاویہ ؓ کی حدیث میں یہ ایک بات زیادہ ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا حضرت ﷺ وہ کون سا فرقہ ہے جو جنتی ہے فرمایا وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر چلیں گے۔ ابوہریرہ ؓ کی حدیث کو ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ اور حاکم کی روایت بھی معتبر ہے۔ اس امت کے بےراہ فرقے وہی سلف کے برخلاف لوگ ہیں جیسے قدریہ جبریہ معتزلہ وغیرہ وغیرہ کہ یہ سب فرقے اپنے عقیدہ اور عمل میں سلف کے برخلاف ہیں اور آپس میں بھی ان میں اختلاف ہے ایک فرقہ دوسرے کو حق پر نہیں جانتا۔ الا من رحم ربک سے اہل سنت کا فرقہ مقصود ہے جو اپنے عقیدہ اور عمل میں سلف کا پیرو ہے اس فرقہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر چلنے والے لوگ ہیں حدیث کی کتابوں میں اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کی حالت جو تفصیل سے لکھی ہے اس حالت کو امت کے موجودہ فرقوں کی حالت سے ملایا جاوے تو خود یہ حالت حدیث کی پیشین گوئی کی صداقت اور یہ حدیث آیت کی تفسیر ہوسکتی ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ مسنگ
Top