Tafseer-e-Madani - Hud : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
پس اب تو ہم تیری لاش ہی کو بچائیں گے، تاکہ تو نشان عبرت بن جائے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے، اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے بالکل غافل ہیں،1
156 ۔ فرعون کی لاش کی حفاظت نشان عبرت کے طور پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اب ہم تیری لاش کو ہی بچا لیں گے تاکہ تو نشان عبرت بن جائے اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے کہ یہ ہے انجام اس شخص کا جو کہ (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) کا دعویدار تھا تاکہ اس طرح ایک طرف تو بنی اسرائیل کو اس کی موت کا یقین ہوجائے جو کہ صدیوں سے اس کی غلامی میں جکڑے ہوئے طرح طرح سے اس کے ظلم و ستم سہہ رہے تھے کہ ان کو ایسے جابر و ظالم کے مرنے کا یقین ہی نہیں آرہا تھا (ابن کثیر وغیرہ) اور دوسری طرف خود اس کی اپنی قوم قبط کی آنکھیں بھی کھل جائیں کہ جس کی وہ پوجا کر رہے تھے اس کا آخری انجام یہ ہے۔ اسی لیے حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ (نجینا) یہاں پر " نجوہ " سے ماخوذ و مشتق ہے۔ جس کے معنی بلند جگہ کے آتے ہیں۔ یعنی اس کی لاش کو اس کی موت کے بعد ہم نے سمندر کے کنارے ایک اونچی جگہ پر ڈال دیا تاکہ وہ دیکھنے والوں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔ چناچہ وہ جگہ جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر آج تک موجود اور معروف ہے جہاں فرعون کی لاش پڑی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک گرم پانی کا ایک چشمہ بھی موجود ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہیں پڑی ہوئی ملی تھی۔ سو اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون ہے جس کا نام تاریخی روایات اور اثریات میں منفتہ ذکر کیا گیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے میوزیم میں موجود ہے جس کو حنوط کے ذریعے محفوظ کرلیا گیا تھا۔ 1907 ء میں حفریات اور آثار قدیمہ کے ایک ماہر مسڑ ایسٹ سمتھ نے جب اس کی ممی پر سے پٹیاں کھولیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کہ اس کے کھارے پانی میں غرق ہونے کی ایک کھلی علامت تھی۔ اور حسن اتفاق یہ ہے کہ اس وقت جبکہ راقم آثم دبی میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہے فرعون کی وہ لاش اس وقت دبی میں موجود ہے جہاں اس پر اس کو سالانہ تجارتی میلہ (المہرجان السنوی للتسوق 97 ء) (Anual Trading Festive l-97) میں مصری بازار میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے اور اس کو دیکھنے کے لیے پانچ درہم کا ٹکٹ بھی لگایا گیا ہے۔ اور یہ تحریر جو اس وقت راقم آثم کے قلم سے ہو رہی ہے 26 اپریل 1997 ء کی تحریر ہے۔ سو دنیا پانچ درہم کا ٹکٹ خرید کر اس کو دیکھ تو رہی ہے لیکن یہ نہیں سوچتی کہ یہ شخص اس انجام کو کیوں پہنچا اور اس میں دنیا والوں کے لیے کیا درس عبرت و بصیرت ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف فرعون کی غرقابی کے بعد اس کی لاش کو محفوظ رکھ دیا گیا تاکہ وہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت بن سکے۔ اور دنیا دیکھ سکے کہ اپنی خدائی کا دعویدار کس انجام سے دوچار ہوا ؟ 157 ۔ اکثر غافل و لاپرواہ۔ والعیاذ باللہ۔ جل و علا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہماری آیتوں سے بالکل غافل ہیں۔ اس لیے وہ ان نشانیوں سے کوئی سبق نہیں لیتے۔ سو غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری اور خرابی و فساد کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ۔ پس غفلت کے مارے ایسے لوگ نہ تو ان میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور نہ ان سے عبرت پکڑتے ہیں۔ سو غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری اور فساد کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ۔ لیکن افسوس آج امت مسلمہ کی بھاری اکثریت اسی مرض میں مبتلا اور اسی بیماری کا شکار ہے۔ اور وہ غور و فکر کے اس گوہر مقصود سے غافل و بےفکر ہو کر بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل کے لیے جی رہی ہے اور بس۔ الا ماشاء اللہ العزیز۔ ورنہ اگر یہ لوگ ہماری ان نشانیوں میں غور و فکر سے کام لیتے تو ان کو عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ملتے۔ ان کی آنکھیں کھل جاتیں اور ان کے دل و دماغ روشن ہوجاتے۔ مگر غفلت و لاپرواہی نے ان کا ایسا بیڑا غرق کردیا ہے کہ یہ اندھے کے اندھے ہی رہے۔ سو اسی طرح فرعون کی لاش کو ہم نے نشانی عبرت کے طور پر باقی رکھا جو آج تک کے فرعونوں کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے مگر اس کو دیکھنے کے لیے جن عبرت پذیر نگاہوں کی ضرورت ہے وہ آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید جل وعلا۔
Top