Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو (انہوں نے ان سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے (اور پیغام پہنچانے) آیا ہوں
25۔ 26۔ مصنف ابن ابی شیبہ مستدرک حاکم تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ چالیس برس کی عمر میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو نبوت ہوئی اور طوفان سے پہلے ساڑھے نو سو برس اپنی قوم کو وہ نصیحت کرتے رہے اور ساٹھ برس طوفان کے بعد پھر زندہ رہے اس حساب سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار پچاس برس کے قریب ہوئی حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے 1 ؎ صاحب شریعت انبیاء کی ابتداء حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے پہلے تک کے لوگوں میں بت پرستی نہیں تھی۔ شیطان کے بہکانے سے پہلے اس قوم نے بت پرستی دنیا میں شروع کی جس کی تفصیل صحیح بخاری کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت 2 ؎ سے سورة نوح میں آوے گی غرض حضرت نوح (علیہ السلام) سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک کے انبیاء اور ان کی قوم کا قصہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما کر آخر کو { وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القریٰ (1: 102)} فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عادت الٰہی یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے راہ پر لانے اور سمجھانے کو انبیاء بھیجے جاتے ہیں آسمان سے ہر طرح کی فہمائش کے احکام اتارے جاتے ہیں قوم کے جاہل لوگ نبی وقت کو جھٹلائیں یا کچھ تکلیف دیں تو نبی کو صبر کرنے اور تکلیف سہنے کا حکم ہوتا ہے قحط بیماری جانی ومالی نقصان پہلے دنیا کے ان چھوٹے چھوٹے خاص عذابوں سے قوم کی تنبیہ کی جاتی اور سرکشی دور کی جاتی ہے اس پر اگر لوگ نہ مانیں تو عام عذاب پھیل کر سب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ الغرض تاریخی پچھلے کسی حال سے آئندہ کا کوئی معاملہ ثابت کرنا یہ ایک بہت عمدہ طریقہ ہے مثلاً شاہجہان بادشاہ کے عہد میں کسی شخص کا یہ کہنا کہ جس طرح اب وزیروں میں پھوٹ پڑگئی ہے اسی طرح کی پھوٹ اکبر بادشاہ کے عہد میں تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی پھوٹ سے اکبر کی بادشاہت میں بڑی خرابی پھیلی تھی اس مقولے سے اس کہنے والے کا یہ مطلب ہے کہ تاریخی تجربہ کے قرینہ سے اس زمانہ حال کی پھوٹ کا نتیجہ بھی آئندہ ملک کی خرابی کا وہی ہوگا جو اکبر کے زمانہ میں ہوا اس تاریخی ثبوت کے ڈھنگ پر جگہ جگہ قرآن شریف میں پچھلے انبیاء اور گزشتہ امتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ظاہر میں ان قصوں کا ذکر کیا جانا خیال میں آتا ہے لیکن حقیقت میں اس سے ایک معاملہ گزشتہ کو معاملہ حال سے مطابقت کی جا کر آئندہ کا نتیجہ لوگوں کی سمجھ میں آنا مقصود ہوتا ہے یہاں آئندہ کا نتیجہ یہی مقصود ہے کہ نبی ﷺ کو یہ تشفی اور تسلی دی گئی ہے کہ اے نبی برحق تم دل جمعی رکھو اگر یہ قریش باوجود فہمائش کے تمہاری نصیحت نہ مانیں گے تو جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر فرعون کی قوم تک انجام ہوا چند روز میں وہی انجام ان کا ہوگا چناچہ { وکلا نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت بہ فوادک (11: 120)} سے اس دلجمعی کی طرف اشارہ ہے اور قریش کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر باوجود فہمائش کے تم اپنی سرکشی سے باز نہ آؤ گے تو پچھلی قوموں کی طرح ہلاک کر دئیے جاؤ گے { وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری وھی ظالمۃ (11: 102)} سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ نصیحت کی کہ اگر تم لوگ بت پرستی سے باز نہ آؤ گے تو تم پر عذاب کے آجانے کا خوف ہے۔ اس لئے تم لوگوں کو چاہیے کہ بت پرستی کو چھوڑو اور جس اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے خالص دل سے اسی کی عبادت کرو۔ { نذیر مبین } کا یہ مطلب ہے کہ بت پرستی اللہ کو بہت ناپسند ہے اس لئے صاف لفظوں میں اس کے وبال سے تم لوگوں کو ڈرا دینا میرا کام ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے۔ اسی واسطے اس نے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو اللہ کی مرضی اور نامرضی کی باتیں معلوم ہوجاویں اور کسی کو ان باتوں کی انجانی کا عذر باقی نہ رہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا نماز روزہ حلال و حرام کے احکام ضرورت کے موافق ہر ایک صاحب شریعت نبی کے زمانہ میں بدلتے رہتے ہیں 2 ؎ اور اسی کو ہر ایک نبی کی شریعت کہتے ہیں مگر توحید جو اصل دین ہے اس سے کوئی شریعت خالی نہیں رہی ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ احکام دین کی انجانی کے سبب سے دنیا میں جب سے شرک پھیلا اس کے رفع کرنے کے لئے اول صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے اور ہر ایک شریعت میں توحید کی تاکید قائم رکھی اور ہر ایک نبی نے عمر بھر اس تاکید کو ہر طرح پورا کیا لیکن عمل الٰہی میں جن لوگوں کا شرک کی حالت میں مرنا ٹھہر چکا تھا ان کے دل پر انبیاء کی نصیحت کا پورا اثر نہ ہوا کیونکہ بعضے نبی ایسے بھی گزرے ہیں جن کی تمام عمر کی کوشش میں فقط ایک ہی شخص راہ راست پر آیا۔ چناچہ صحیح مسلم کی انس بن مالک ؓ کی روایت میں اس کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن بعضے نبیوں کے ساتھ فقط ایک شخص فرمانبردار ہوگا اور باقی امت نافرمان 3 ؎ ہوگی صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے کہ بہ نسبت اور امتوں کے امت محمدیہ کی تعداد قیامت کے دن زیادہ ہوگی اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ قرآن کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ قیامت کے دن اس کے پیرو اور آسمانی کتابوں کے پیروی کرنے والوں سے زیادہ ہوں گے۔ 4 ؎ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 261۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 509 باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء الخ۔ 3 ؎ صحیح مسلم ص 112 ج 1 باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار و صحیح مسلم ص 86 ج 1 باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا ﷺ الخ۔ 4 ؎ صحیح بخاری ص 744 ج 2 باب کیف نزول الوحی۔
Top