Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 48
قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ١ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ
قِيْلَ : کہا گیا يٰنُوْحُ : اے نوح اهْبِطْ : اتر جاؤ تم بِسَلٰمٍ : سلامتی کے ساتھ مِّنَّا : ہماری طرف سے وَبَرَكٰتٍ : اور برکتیں عَلَيْكَ : تجھ پر وَ : اور عَلٰٓي اُمَمٍ : گروہ پر مِّمَّنْ : سے، جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ وَاُمَمٌ : اور کچھ گروہ سَنُمَتِّعُهُمْ : ہم انہیں جلد فائدہ دینگے ثُمَّ : پھر يَمَسُّهُمْ : انہیں پہنچے گا مِّنَّا : ہم سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہونگی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) محظوظ کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔
48۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ کشتی میں اسی آدمی تھے چالیس مرد اور چالیس عورتیں وہ کشتی میں ایک سو پچاس دن رہے کشتی کا منہ مکہ کی طرف تھا چالیس روز وہ کشتی مکہ کے گرد پھری پھر اس کا منہ اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف پھیر دیا وہاں آکر ٹھہری نوح (علیہ السلام) نے ایک کوے کو بھیجا کہ خبر لاؤ وہ ایک مردے پر آکر بیٹھ رہا جب دیر ہوئی تو ایک کبوتر کو بھیجا وہ آکر زیتون کا پتا لے گیا اس کے پنجے کیچڑ میں بھرے، حضرت نوح (علیہ السلام) نے جان لیا کہ پانی خشک ہوگیا اور پہاڑ سے نیچے اترے اور ایک گاؤں بسایا جس کا نام ثمانین رکھا ایک روز صبح کو جب لوگ سوتے ہوئے اٹھے سبھوں کی باتیں بدل گئیں کوئی کسی کی بات نہیں سمجھتا تھا۔ عربی زبان ان میں بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ایک کی بات کا ترجمہ کر کے دوسرے کو بتلاتے تھے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دسویں تاریخ محرم کو عاشورے کے دن یہ لوگ جودی سے نیچے اترتے تھے۔ اور اس دن انہوں نے روزہ رکھا تھا معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت ﷺ کا گزر یہود کی طرف ہوا وہ دن عاشورہ کا تھا وہ سب روزے سے تھے۔ آپ نے پوچھا یہ کیسا روزہ ہے ان لوگوں نے کہا کہ آج ہی کا دن ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوئے تھے اور فرعون ڈوبا تھا۔ اور آج ہی کے دن نوح (علیہ السلام) کشتی سے زمین پر اترے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے شکریہ میں روزہ رکھا تھا آپ نے فرمایا ہم زیادہ اس روزہ کے حقدار 1 ؎ ہیں اور آپ نے روزہ کی نیت کرلی کیوں کہ اب تک کچھ کھایا پیا نہ تھا اور اصحاب سے بھی یہ فرمایا کہ جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزہ رکھ لے غرض کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) پہاڑ سے نیچے اترنے لگے تو یہ گمان کیا کہ ساری دنیا تو غرق ہوگئی کوئی چیز کھانے پینے کی کیوں کر ملے گی اس پر یہ حکم ہوا کہ اے نوح سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اترو مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں پر انسان کی سلامتی موقوف ہے وہ سب تمہارے لئے موجود ہیں اور تمہاری نسل میں بھی برکت ہوگی۔ مگر علم الٰہی کے موافق تمہاری اولاد و اولاد میں دو فرقے ہوں گے ایک تو راہ راست پر آنے والا فرقہ ہوگا جو دنیا اور عقبیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور دوسرا نافرمان لوگوں کا فرقہ ہوگا جو دنیا کی چند روزہ راحت اٹھا کر پھر عقبیٰ اور دنیا کے طرح طرح کے عذابوں میں پکڑا جاوے گا۔ قوم عاد سے لے کر قریش تک نوح (علیہ السلام) کی اولاد کی جو حالت دنیا میں پیدا ہونے کے بعد گزری ان قوموں کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے موافق مبہم طور پر وہ سب حالت اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں نوح (علیہ السلام) کو جتلا دی۔ اسی قسم کی آئندہ کی سچی پیشین گوئیوں میں سے قرآن شریف کا کلام الٰہی ہونا اور حضرت محمد ﷺ کا برحق رسول ہونا ثابت ہوتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ماں کے پیٹ میں جب بچہ کا پتلہ تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے علم ازلی کے موافق رحم پر تعیناتی والے فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس بچہ کا رزق اس کی عمر اس کے اعمال اس کی نیکی بدی کا حال لکھ لیا جاوے وہ فرشتہ ایک کاغذ پر یہ سب باتیں لکھ لیتا ہے پھر اس پتلے میں روح پھونکی جاتی ہے۔ 2 ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جودی پہاڑ سے اترتے وقت نوح (علیہ السلام) کے دل میں یہ خیال جو گزرا تھا کہ ساری دنیا کی چیزیں تو غرق ہوگئیں اب پہاڑ سے اترنے کے بعد کھانے پینے کی چیزیں ان باقی کے لوگوں کو کیوں کر ملیں گیں۔ نوح (علیہ السلام) کے اس خیال کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے آیت اور حدیث کو ملا کر اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے جسم میں روح کے پھونکے جانے سے پہلے جن باتوں کا انتظام علم الٰہی میں اور باتیں جو لکھی گئی تھیں جواب کے پورے ہوجانے کے لئے ان کا تذکرہ بھی جواب میں اللہ تعالیٰ نے کردیا تھا اس لئے اس پورے جواب کو اس آیت میں دوہرایا۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص۔ 18 باب صیام التطوع۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 976 ج 2 کتاب القدر ومشکوٰۃ ص 20 باب الایمان بالقدر۔
Top