Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 49
تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ١ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا١ۛؕ فَاصْبِرْ١ۛؕ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ : غیب کی خبریں نُوْحِيْهَآ : ہم وحی کرتے ہیں اسے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مَا : نہ كُنْتَ تَعْلَمُهَآ : تم ان کو جانتے تھے اَنْتَ : تم وَلَا : اور نہ قَوْمُكَ : تمہاری قوم مِنْ : سے قَبْلِ ھٰذَا : اس سے پہلے فَاصْبِرْ : پس صبر کریں اِنَّ : بیشک الْعَاقِبَةَ : اچھا انجام لِلْمُتَّقِيْنَ : پر وہیزگاروں کے لیے
یہ (حالات) من جملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں (اور) اس سے پہلے نہ تم ہی ان جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے۔
49۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کا قصہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تفصیل سے ذکر فرما کر اس آیت میں مشرکین مکہ اور اس زمانہ کے ہند اور چین اور فارس اور مصر کے مشرکوں کے قائل کرنے کو یہ فرمایا ہے کہ یہ قصہ اور اس طرح کے زمانہ گزشتہ کے اور قصے غیب کی خبریں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے جتلایا ہے جس کو اللہ تعالیٰ جتلاتا ہے اسی کو صحیح طور پر یہ قصے معلوم ہوتے ہیں دوسرے کو ان قصوں کا حال کیا معلوم ہوسکتا ہے مشرکین مکہ تو ان پڑھ لوگ ہیں اس طرح کی غیب کی خبروں کا ان لوگوں کا انکار کرنا تو محض سرکشی کے سبب سے ہے کچھ دنوں ان کی سرکشی پر اے اللہ کے رسول تم کو صبر کرنا چاہیے انجام کار یہی ہوگا کہ اللہ کے رسول تم کو اور تمہارے ساتھ جو اللہ سے ڈرنے والے پرہیز گار لوگ ہیں ان کو غلبہ ہوگا اور اللہ کی وحی اور غیب کی خبروں کے جھٹلانے والے یہ سرکش لوگ اخیر کو ذلیل ہوں گے رہے ہند اور فارس اور چین اور مصر کے اس زمانہ کے وہ مشرک لوگ جنہوں نے یا تو اپنی کتابوں میں طوفان نوح کا انکار لکھا ہے یا یہ لکھا ہے کہ شہر بابل اور اس کے اطراف میں یہ طوفان آیا تھا تمام دنیا میں نہیں آیا یہ لوگ بھی عرب کے اس زمانہ کے ان پڑھ لوگوں کی طرح اس قصہ کے حال سے بیخبر اور جاہل ہیں کیوں کہ نہ ان کی اتنی عمر ہے کہ انہوں نے اس قصہ کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہو نہ اس کے پاس اس زمانہ کی کوئی تاریخ کی صحیح کتاب ہے پھر ان لوگوں نے اپنی اٹکل کو ایک غیب کی بات میں جو لگایا ہے اس کو کیا اعتبار جس غیب دان کے حکم سے وہ طوفان دنیا میں آیا تھا صحیح قصہ اس طوفان کا وہی ہے جو اس غیب دان نے وحی کے ذریعہ سے اپنے رسول کو بتلایا ہے۔ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص مشرکین مکہ کی بتوں کی کچھ مذمت کرتا تھا۔ تو یہ مشرک لوگ اپنے بتوں کی حمایت میں اللہ تعالیٰ کی مذمت کرنے کو مستعد ہوجاتے تھے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی یہ حدیث بھی ایک جگہ گزرچکی ہے کہ اسلام کا غلبہ اور بت پرستوں کی ذلت جتانے کے لئے فتح مکہ کے وقت انہی بتوں کو آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر گرادیا 1 ؎ اور کوئی مشرک ان بتوں کی کچھ حمایت نہ کرسکا۔ سوہ انعام کی آیت { ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ (6: 108)} اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے جس سے مشرکوں کی حد سے زیادہ سرکشی پر صبر کا موقع اور اس صبر کے اجر میں آخر اسلام کا جو کچھ غلبہ ہو اور حالت دونوں باتیں اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں اور اس طرح کی سچی پیشن گوئی سے قرآن کا کلام الٰہی ہونا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا رسول ہونا اچھی طرح آدمی کے ذہن نشین ہوسکتا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 686 ج 2 باب قولہ قل جاء المحق وزہق الباط الخ۔
Top