Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور ان کو خوش خبری بھی مل گئی تو قوم لوط کے بارے میں لگے ہم سے بحث کرنے۔
74۔ 76۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب خوشی سنائی گئی اور ان کا خوف بھی جاتا رہا تو یہ سن کر یہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کو جارہے ہیں ان کا دل بہت کڑہنے لگا اور فرشتوں سے جھگڑنے لگے کہ جس گاؤں میں تین سو مسلمان ہونگے اس کو ہلاک کرو گے۔ فرشتوں نے کہا نہیں، تب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا چالیس تو ہوں گے چالیس نہیں تیس سہی تیس بھی نہ ہوں دس تو ہوں گے۔ دس بھی نہیں سہی ایک تو ہوگا فرشتوں نے کہا ایک بھی نہیں تب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اس گاؤں میں لوط (علیہ السلام) بھی تو ہیں فرشتوں نے جواب دیا ہمیں سب کچھ معلوم ہے جو جو وہاں ہیں۔ لوط (علیہ السلام) اور ان کے گھر والے سوائے ان کی بیوی کے سب بچ جائیں گے اور ان کی بیوی اور سارا گاؤں ہلاک ہوجائے گا۔ مفسروں نے یہی معنے یجادلنا کے بیان کئے ہیں کہ اللہ نے فرمایا میرے رسولوں سے جھگڑا جو کیا اس کا سبب یہ تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) بہت نرم دل تھے چاہتے تھے کہ کچھ دنوں اور عذاب تھم جائے شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں مگر خدا نے فرمایا کہ تو بردبار اور نرم دل ہو اور خدا کی مرضی پر قائم رہنے والے ہو یہ باتیں صرف تمہارے نرم دل ہونے کی وجہ سے ہیں تم اس خیال سے باز آؤ خدا کا حکم جاری ہوچکا ان پر ضرور عذاب آئے گا جو کسی طرح رک نہیں سکتا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ قوم لوط جیسے سرکش لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے اور پھر مہلت کے بعد جب عذاب آجاتا ہے تو کسی کے ٹالے سے نہیں ٹلتا۔ 1 ؎ آخری آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) نے سفارش کے نامنظور ہونے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 678 ج 2 باب قولہ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔
Top