Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (الٹ کر) نیچے اوپر کردیا اور ان پر پتھر کی تہ بہ تہ (یعنی پے در پے) کنکر یاں برسائیں۔
82۔ 83۔ جب لوط (علیہ السلام) کو حکم ہوگیا کہ آپ معہ اہل و عیال کے فقط اپنی بیوی کو چھوڑ کر اس گاؤں سے چلے جائیں اب ان پر عذاب آوے گا اور کوئی تم میں سے پیچھے مڑ کر نہ دیکھے غرض کہ حضرت لوط (علیہ السلام) خدا کے حکم سے باہر چلے گئے اور خدا کا عذاب آیا جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا پر زمین کے اندر ڈال کر اس زمین کا طبقہ اٹھا لیا اور آسمان کی طرف لے گئے۔ مفسروں نے بیان کیا ہے کہ آسمان والوں نے اس وقت مرغوں کے بولنے اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے اس طبقہ کو اٹھا کر زمین کی طرف پھینک دیا یہ لوگ اوندھے آکر زمین پر پڑے یہی معنی ہیں جعلنا عالیھا سلفھا کے مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس گاؤں کی زمین ہی کو الٹ دیا پھر پتھر کی کنکریوں کی بھرمار اوپر سے ہوئی۔ سنگ فارسی میں پتھر کو کہتے ہیں اور گل مٹی کو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ ان دونوں لفظوں کو ملا کر سجیک بنا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر مٹی کے ملے ہوئے کھنگر تھے۔ منضود کا مطلب یہ ہے کہ کنکریاں اس طرح پھینکی گئیں کہ ایک ذرا بھی مہلت نہ دی گئی پے در پے آتی تھیں مسرمۃ کے یہ معنے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کنکریوں پر لوگوں کے نام کی مہریں لگی ہوئی تھیں جس کے نام کی کنکری ہوتی اسی پر پڑتی تھی۔ مجاہد ؓ کا قول ہے کہ یہ عذاب ان لوگوں پر صبح کے وقت نازل ہوا تھا۔ پھر خدا نے فرمایا کہ یہ بات ظالموں سے کچھ بعید نہیں ہے وہ لوگ اپنے ظلم کے سبب سے اسی لائق تھے کہ وہاں کی زمین بھی تلے اوپر کردی جائے بعضوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ کفار مکہ کی طرف خطاب ہے کہ یہ لوگ بھی ظلم پر کمر باندھے ہوئے ہیں ان سے اور اس گاؤں سے کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے ملک شام مکہ سے قریب ہی ہے ان کے ظلم کا بھی یہی نتیجہ ہوگا کہ ان کی طرح ان پر بھی کوئی عذاب نازل ہو بعض مفسروں کا یہ بھی بیان ہے کہ چار گاؤں تھے ان میں سدوم زیادہ بڑا تھا ایک لاکھ کی بستی تھی تین لاکھ باقی کی بستیوں میں تھے سب کے سب ہلاک ہوئے ایک بھی نہیں بچا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ ایسے سرکش لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب پکڑتا ہے۔ تو بالکل ہلاک کردیتا ہے۔ 1 ؎ یہ حدیث اس ہلاک کی گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 678 ج 2 باب قولہ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔
Top