Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اَوْفُوا : پورا کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف سے وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی چیزیں وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے
اور اے قوم ! ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو۔
85۔ جمہور مفسرین کا قول ہے کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ ایک ہی امت کا نام ہے اور اسی ایک امت کے حضرت شعیب (علیہ السلام) نبی تھے لیکن فقط قتادہ اور عکرمہ کا یہ قول ہے کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ جدا جدا دو امتیں ہیں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) دو امتوں کے نبی ہوئے ہیں جمہور مفسرین نے اس قول پر طرح طرح سے اعتراض کیا ہے۔ اس سورت اور سورت شعراء کے قصہ کو ملا کر دیکھا جاتا ہے تو کم تولنے اور قراقی کی اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کی ایک ہی سی بد عادتیں اللہ تعالیٰ نے دونوں سورتوں میں ذکر فرمائی ہیں جس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ دونوں سورتوں میں ایک ہی امت کا ذکر ہے یہ قصہ سورت قصص میں آوے گا کہ فرعون اور فرعون کی قوم کے خوف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بدین کو چلے گئے اور مدین میں ایک بزرگ کی لڑکی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا اس قصہ میں مشہور قول تو یہی ہے کہ وہ بزرگ یہی حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے لیکن اس مشہور قول پر حافظ ابن کثیر اور مفسرین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی امت کو یہ نصیحت کی ہے کہ تم لوگوں کے زمانہ سے تھو ڑے ہی زمانہ آگے قوم لوط کے لوگ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوچکے ہیں سرکشی کرو گے تو تم لوگ بھی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاؤ گے اور یہ تو صحیح تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوچکا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں چار سو برس سے زیادہ کا فاصلہ ہے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک حضرت شعیب کیوں کر زندہ رہ سکتے ہیں اس کا جواب بعضے مفسروں نے یہ دیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی عمر بڑی ہوئی ہے لیکن یہ جواب کسی سند کا محتاج ہے اس واسطے حافظ ابن کثیر نے یہی بات صحیح قرار دی ہے کہ وہ بزرگ حضرت شعیب (علیہ السلام) نہیں تھے بلکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے جن کا نام شہرون 1 ؎ تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی بعض حدیثوں میں جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام اور ذکر آیا ہے ان حدیثوں کی سند صحیح نہیں 2 ؎ ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر ابن جریر اور ابن عساکر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ قوم شعیب کے لوگ مدین کے راستہ پر بیٹھ جاتے تھے اور مدین کے آنے والے مسافروں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی باتیں نہ سننے کی طرح طرح سے پٹی پڑھاتے تھے اور مسافروں کا مال بھی اکثر لوٹ لیتے تھے اسی کو ولا تعثوا فی الارض مفسدین فرمایا۔ غرض درختوں کے پوجنے کے سوا راستہ پر بیٹھ کر مسافروں کے بہکانے اور لوٹنے کی کم تولنے اور ناپنے کی بری عادتیں ان لوگوں میں تھیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل قرار پا چکے ان کو ویسے ہی کام دنیا میں اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ حدیث 3 ؎ ان لوگوں کی حالت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شعیب (علیہ السلام) نے اگرچہ ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی مگر یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل قرار پاچکے تھے اس لئے شعیب (علیہ السلام) کی وہ سب کوشش رائیگاں گئی اور یہ لوگ مرتے دم تک راہ راست پر نہ آئے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثر ص 384 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 384 ج 3۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 738 ج 2 تفسیر سورة واللیل اذا یغشی۔
Top