Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 10
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ
سَوَآءٌ : برابر مِّنْكُمْ : تم میں مَّنْ : جو اَسَرَّ : آہستہ کہے الْقَوْلَ : بات وَمَنْ : اور جو جَهَرَ بِهٖ : پکار کر۔ اسکو وَمَنْ : اور جو هُوَ : وہ مُسْتَخْفٍ : چھپ رہا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَسَارِبٌ : اور چلنے والا بِالنَّهَارِ : دن میں
کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں۔ چھپ جائے یا دن (کی روشنی) میں کھلم کھلا چل پھرے (اس کے نزدیک) برابر ہے۔
10۔ آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا کہ لوگوں کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کو بھی سنتا ہے خواہ کوئی چلا کے باتیں کرے یا چپکے سے اور جو شخص اندھیری رات میں اپنے گھر کے تہ خانہ میں بیٹھ کر بولے یا دن کے وقت روشنی میں سر راہ کھلم کھلا باتیں کرے سب اس کے نزدیک برابر ہے غرض کہ اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے کوئی بات کسی قسم کی اس سے پوشیدہ نہیں۔ مسند امام احمد صحیح بخاری مسلم وغیرہ کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں مشرکین مکہ میں تین شخصوں نے ایسے چپکے سے کچھ باتیں کعبہ میں کریں کہ میں نے وہ باتیں نہیں سنیں مگر اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں سن کر حم سجدہ کی چند آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎ معتبر سند کی انس بن مالک ؓ کی حدیث مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے گزر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ بعضے عملوں کی خرابی کا حال نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہوگا لیکن اللہ قیامت کے دن ان عملوں کو نامہ اعمال سے خارج کرنے کا حکم دے کر فرماوے گا کہ یہ عمل خالص نیت کے نہیں ہیں۔ 2 ؎ اللہ تعالیٰ کے لوگوں کی آہستہ باتیں سننے اور ان کا پوشیدہ حال جاننے کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 712 ج 2 تفسیر سورت حم السجدہ 2 ؎ الترغیب ص 21 ج 1 الترہیب من الریأ الخ۔
Top