Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 32
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : مذاق اڑایا گیا بِرُسُلٍ : رسولوں کا مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَمْلَيْتُ : تو میں نے ڈھیل دی لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے ان کی پکڑ کی فَكَيْفَ : سو کیسا كَانَ : تھا عِقَابِ : میرا بدلہ
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں تو ہم نے کافروں کو مہلت دی پھر پکڑ لیا۔ سو (دیکھ لو کہ) ہمارا عذاب کیسا تھا ؟
32۔ اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضرت سے کہا تھا کہ یہاں کے پہاڑ اکھڑ کر علیحدہ ہوجائیں اور یہاں ایک باغ دلکشا بن جائے اور آپ ہمارے کسی مردے کو جلا دیں تاکہ ہم اس سے پوچھیں کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ ہے اور ہوا کو ہمارے قبضے میں کردیں جس طرح سلیمان (علیہ السلام) کے قبضے میں تھی ہم جہاں چاہیں گے چلے جایا کریں گے تو اس وقت اس سے اوپر کی آیت اتری تھی اور اصل میں یہ سوال ان کا دل لگی کے طور پر تھا جس سے حضرت ﷺ کو ایک قسم کا ملال ہوا تھا اس لئے اللہ جل شانہ نے آپ کی تسلی کے لئے یہ آیت اتاری کہ تم سے پہلے جو رسول گزرے ہیں ان سے بھی پہلے لوگوں نے مسخرا پن کیا تھا اور ہم نے ڈھیل دی آخر اس طرح پکڑا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے تم نے سنا ہوگا کہ آخر کیا نتیجہ ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ پاک ظالموں کو مہلت دیتا ہے کہ وہ خوب عیش و آرام کرتے ہیں پھر جب پکڑ لیتا ہے تو نہیں چھوڑتا اس کی پکڑ بہت سخت ہے اور نہایت درد ناک 1 ؎ ہے۔ یہ حدیث اور پہلی امتوں کی طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوجانے کے قصے یہ سب گویا اس آیت کی تفسیر ہیں۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 205/224، جلد ہذا ص 202، 232۔
Top