Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 34
لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ
لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : البتہ آخرت کا عذاب اَشَقُّ : نہایت تکلیف دہ وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے مِنْ وَّاقٍ : کوئی بچانے والا
ان کو دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت سی سخت ہے۔ اور ان کو خدا (کے عذاب سے) کوئی بھی بچانے والا نہیں۔
34۔ 35۔ اللہ جل شانہ اس سے اوپر کی آیت میں مشرکین کا حال جب بیان فرما چکا تو اب یہ بات بیان فرمائی کہ ان لوگوں کے لئے دنیا میں اور آخرت میں دونوں جگہ عذاب ہے دنیا کا عذاب تو مثلاً مکہ کا سخت قحط جس کا ذکر صحیح 1 ؎ بخاری میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں تفصیل سے ہے اور آخرت کا عذاب وقت مقررہ پر اس سے بھی مشقت کا ہے اور پھر کوئی اس سے بچانے والا بھی نہیں۔ اس کے بعد اللہ جل شانہ نے جنت کی مثال بیان کی کہ وہ جنت جس کا وعدہ خدا پر ایمان لانے والوں اور اس کے خوف سے ڈرنے والوں سے کیا گیا ہے اس میں یہ خوبیاں ہیں کہ جا بجا اس میں نہریں جاری ہیں اور اس کی نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہیں کبھی کم نہیں ہوں گی اور سایہ بھی وہاں ہمیشہ رہے گا دنیا میں جس طرح سایہ صبح و شام ہوتا ہے دوپہر کو جلتی دھوپ ہوتی ہے وہاں یہ بات نہیں وہاں تو ہمیشہ ہمیشہ ہر وقت چھاؤں ہی چھاؤں ہے کیونکہ وہاں سورج نہیں ہے۔ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ایک حدیث ہے کہ حضرت ﷺ نے سورج گرہن کی نماز میں ایک روز آگے کی طرف ہاتھ بڑھایا بعد نماز کے صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ حضرت ﷺ نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے ہاتھ بڑھا کر کسی شی کو لینا چاہا پھر رک گئے آپ نے فرمایا مجھے بہشت دکھائی گئی تھی میں نے اس میں سے ایک خوشہ انگور کا لینا چاہا تھا اگر وہ خوشہ لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی وہ انگور تم کھایا کرتے 2 ؎ تو وہ خوشہ کبھی گھٹتا نہیں مسلم میں جابر ؓ سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث 3 ؎ ہے۔ یہ حدیث اکلھا دائم کی گویا تفسیر ہیں اور جنت کے سایہ کی تفسیر ہیں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ اور انس بن مالک ؓ کی حدیثیں 4 ؎ گزر چکی ہیں کہ جنت کے ایک درخت کا سایہ گھوڑے کا سوار بھی سو برس میں طے نہ کرسکے گا جنت کی نہروں کی تفسیر سورت محمد میں تفصیل سے آوے گی۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب ابو طالب پر ہوگا کہ ابو طالب کے پیروں میں آگ کی جوتیاں پہنادی جاویں گی جس سے ابو طالب کا بھیجا پگل کر نکل پڑے گا۔ 5 ؎ اس حدیث سے دوزخ کے عذاب کی سختی کا حال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ شروع آیت میں دوزخ کے عذاب اور جنت کی نعمتوں کا ذکر فرما کر پھر آخر آیت میں بطور نتیجہ کے فرمایا ہے کہ ان میں ایک ٹھکانہ خدا سے ڈرنے والوں کا ہے اور ایک عقبی کے منکر لوگوں کا۔ 1 ؎ ص 714۔ 718 ج 2 تفسیر سورت الدخان۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 767 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 517 ج 2۔ 4 ؎ جلد ہذا ص 232۔ 5 ؎ صحیح مسلم ص 115 ج 1 باب شفاعۃ النبی ﷺ لا بی طالب الخ۔
Top