Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ ہم نے بھیجے رُسُلًا : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے دیں لَهُمْ : ان کو اَزْوَاجًا : بیویاں وَّذُرِّيَّةً : اور اولاد وَمَا كَانَ : اور نہیں ہوا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لیے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت سے لِكُلِّ اَجَلٍ : ہر وعدہ کے لیے كِتَابٌ : ایک تحریر
اور (اے محمد ﷺ ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی۔ اور کسی پیغمبر کے اخیتار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضاُ (کتاب میں) مرقوم ہے۔
38۔ مشرکین مکہ حضرت ﷺ کی بابت یہ کہا کرتے تھے کہ یہ کیسے رسول ہیں جن کی بیویاں بھی ہیں اور بچے بھی ہیں اور یہ بھی کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے رسول ہوتے تو جو معجزہ ہم ان سے طلب کرتے ہیں وہ فوراً کردکھاتے انہیں دونوں باتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا کہ جتنے رسول ہوئے ہیں وہ سب کے سب بشر تھے کوئی فرشتہ نہ تھا انہیں کی طرح یہ رسول بھی بشر ہیں کھاتے بھی ہیں پیتے بھی ہیں چلتے پھرتے بھی ہیں بیویاں بچے بھی ان کے ہیں جیسے پہلے رسولوں کے تھے چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں اسی طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں پھر ان کے بھی اگر بیویاں اور بچے ہیں تو کیا نقصان ہے کچھ یہ رسالت کے خلاف نہیں ہے۔ معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں سعد بن ہشام ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس جا کر کہا کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں نکاح نہ کروں فرمایا تو ایسا نہ کر کیا تو نے خدا کا یہ کلام نہیں سنا ہے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے یہی آیت پڑھی 1 ؎ معتبر سند سے دوسری حدیث ترمذی ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے سمرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ﷺ سے مجرد رہنے سے 2 ؎ منع فرمایا ہے اور اکثر حدیثوں میں نکاح کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور مجرد رہنے سے منع کیا گیا ہے مسند امام احمد اور ترمذی میں معتبر سند سے ابو ایوب ؓ سے ایک حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ نکاح سب پیغمبروں کی سنت 3 ؎ ہے۔ صحیحین میں حضرت انس ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں سوتا بھی ہوں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں جس نے میری سنت سے منہ پھیرا وہ میری سنت کا پابند نہیں 4 ؎ ہے۔ پھر اللہ جل شانہ نے مشرکین مکہ کی دوسری بات کا یہ جواب دیا کہ رسول کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ تمہاری ہر فرمائش کے مطابق معجزہ دکھاوے یہ تو خدا ہی کا کام ہے۔ جب وہ چاہتا ہے کوئی معجزہ ظاہر کرتا ہے جب نہیں چاہتا نہیں ظاہر کرتا رسول کچھ خود مختار نہیں ہیں کہ جو چاہیں کر گزریں جتنے رسول ہوئے ہیں سب خدا کے حکم کے تابع رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے جب جیسا مناسب سمجھا معجزہ ظاہرہ کرایا تمہارے ایمان لانے کو تو ایک شق القمر کا معجزہ بھی کافی تھا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی فرمانبرداری اور جنت میں جانے کے کام کریں گے اور کتنے آدمی نافرمانی اور دوزخ میں جانے کے کام کریں گے۔ اور اس کے موافق ہر ایک شخص کا جنت اور دوزخ میں ٹھکانا ٹھہر چکا ہے۔ 5 ؎ اس حدیث کو آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جہاں ان نافرمان لوگوں کے اور نافرمانی کے کام لکھے گئے ہیں وہاں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان نافرمان لوگوں کی معجزہ کی خواہش کچھ راہ راست پر آنے کی نیت سے نہ ہوگی بلکہ مسخرا پن کے طور پر ہوگی اس لئے معجزہ کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت پر منحصر کر رکھا ہے ایسے نافرمان لوگوں کی خواہش پر نہیں رکھا کیونکہ یہ بات علم الٰہی میں ٹھہر چکی ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں کوئی معجزہ کچھ مفید نہ ہوگا۔ 1 ؎ تفسیر فتح البیان ص 598 ج 2۔ 2 ؎ جامع ترمذی ص 128 ج 1 باب ماجاء فی النہی عن القبتل۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 519 ج 2 والترغیب ص 39 ج 2۔ 4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 518 ج 2۔ 5 ؎ جلد ہذا ص 23502320202۔
Top