Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 42
وَ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِیْعًا١ؕ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
وَقَدْ مَكَرَ : اور چالیں چلیں الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْمَكْرُ : چال (تدبیر) جَمِيْعًا : سب يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا تَكْسِبُ : جو کماتا ہے كُلُّ نَفْسٍ : ہر نفس (شخص) وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الْكُفّٰرُ : کافر لِمَنْ : کس کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : عاقبت کا گھر
جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی (بہتیری) چالیں چلتے رہے ہیں سو چال تو سب اللہ ہی کی ہے۔ ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ اور کافر جلد معلوم کریں گے کہ عاقبت کا گھر (یعنی انجام محمود) کس کے لئے ہے۔
42۔ مگر کہتے ہیں اس طرح سے انسان کو تکلیف پہنچانے کو جس سے وہ بالکل بیخبر ہو اللہ پاک نے اس آیت میں حضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ جس طرح کفار مکہ تمہاری ایذا رسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اسی طرح ان سے پہلے بھی لوگ خدا کے رسولوں کو ایذا پہنچا چکے ہیں۔ جیسے نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی مگر ان کے یہ مکر کچھ پیش نہیں چل سکتے کیونکہ جتنے مکر ہیں سب خدا کی مخلوق ہیں اور اسی کے ارادہ سے ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے کسی مکر سے کوئی نفع اور ضرر بغیر حکم خدا کے نہیں ہوسکتا اور وہ ہر شخص کے عمل کو جانتا ہے کہ کون برائی کرتا ہے اور کون بھلائی کرتا ہے پھر جو جیسا کرے گا اس کو ویسا بدلہ ملے گا اور کفار یہ بات بھی عنقریب جان لیں گے کہ آخرت کا گھر کس کو ملنا ہے مومنین کو یا ان کفار کو۔ معتبر سند سے مسند امام احمد طبرانی اور دلائل النبوۃ بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جب آنحضرت ﷺ کو شہید کر ڈالنے کا مشورہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مشورہ کا حال اپنے رسول کو جتلا دیا اس لئے آپ نے اپنی جگہ پر سونے کے لئے حضرت علی ؓ کا حکم دیا اور آپ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر پہلے غار ثور کو اور پھر مدینہ کو چلے 1 ؎ آئے ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے آگے اللہ کے رسول کے مخالفوں کا کوئی مکرو فریب چل نہیں سکتا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث گزر چکی 2 ؎ ہے کہ بدر کی لڑائی میں جو مشرک مارے گئے تھے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اللہ کے رسول نے فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پالیا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس حاصل یہ ہے کہ اب یہ مشرک لو عقبی کے عذاب کو جھٹلاتے ہیں مگر مرنے کے ساتھ ہی ان کو اپنا عقبی کا انجام معلوم ہوجاوے گا۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 303 ج 2 تفسیر آیت واذا یمکریک الذین کفروالآیہ۔ 2 ؎ جلد ہذا 202۔ 208۔ 227۔ 234۔
Top