Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا (ہمارے) مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دینگے
13۔ 14۔ یہ سلسلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس وعظ کا چلا آتا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا پہلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود بنی اسرائیل کو طرح طرح کی نصیحت وعظ کے طور پر کی پھر اس وعظ میں سب سے اول صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب (علیہ السلام) تک کے انبیاء نے اپنی امتوں کو جو جو نصیحتیں کی تھیں ان سب کا ذکر کیا اور ان سب نصیحتوں کو سن کر ان پہلی امتوں کے لوگوں نے اپنے اپنے رسولوں کو جو جوابات دئیے ہیں ان جوابوں کا یہ ذکر ہے کہ یا انہوں نے یہ کہا کہ ہم اور تم ایک سے انسان ہیں پھر ہم تم کو اللہ کا رسول کیوں کر جان لیویں یا یہ کہا کہ تم نصیحت سے باز نہ آؤگے اور اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہے جاؤگے تو ہم تم کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تم کو زبردستی ہمارا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ منکر امتوں کے جہاں تک قرآن شریف میں قصے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر قریش تک یہی دو تین باتیں اللہ کے رسولوں سے کہتے رہے اسی واسطے سورت والذاریات میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک مرنے والا دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو وصیت کرجاتا ہے اور سب آپس کی وصیت پر چلتے اور عمل کرتے رہتے ہیں یہی حال ان پہلی امتوں کا ہے کہ ایک سی ہی باتیں یہ سب انبیاء سے کرتے چلے آتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سب کا بہکانے والا شیطان ابتداء دنیا سے آخر تک ایک ہی ہے ایک سے ہی وسوسے اس نے سب کے دلوں میں ڈالے ہیں اس لئے ان سب نے ایک سی باتیں کی ہیں اس سارے مطلب کو اللہ تعالیٰ نے سورت والذاریات کے ان مختصر لفظوں میں ادا فرمایا ہے۔ { اتواصوا بہ بل ھو قوم طاغون } [51: 3] حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جس نصیحت کا ذکر ہے یہ ایسی ایک فائدہ مند صاحب تاثیر اور مختصر نصیحت ہے کہ عمل کرنے والے شخص کو نجات عقبیٰ کے لئے یہ ہی ایک نصیحت لکھ کر بھیج دو کہ اس نصیحت کے بعد پھر مجھ کو کسی نصیحت کی ضرورت باقی نہ رہے حضرت عائشہ ؓ نے اس خط کے جواب میں جو خط لکھا اس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کی رضا مندی کا خیال اپنے دل میں رکھا اور دنیا کے لوگوں کی رضا مندی کی کچھ پروا نہ کی خدا تعالیٰ ایسے شخص کے لئے ایسے سبب کھڑے کر دیوے گا کہ دنیا کے سب لوگ خود بخود اس شخص سے راضی اور خوشی رہویں گے۔ اور جس شخص نے دنیا کے لوگوں کی رضا مندی کو مقدم رکھا اور اللہ کی رضا مندی کا خیال اپنے دل میں نہ رکھا اس سے نہ دنیا کے لوگ خوش رہ سکتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ خوش رہتا ہے اس خط میں حضرت عائشہ ؓ نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہی لکھا ہے۔ اس قصے کو ترمذی نے مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے روایت کیا 1 ؎ ہے۔ جس سے ایک روایت کو دوسری سے تقویت ہوجاتی ہے۔ جو حدیث آنحضرت ﷺ تک پہنچ جاوے اس کو مرفوع کہتے ہیں اور جس حدیث کی روایت کسی صحابی پر ٹھہر جاوے اس کو موقوف کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے خط کا مضمون ایک غیب کی بات ہے عقل کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر صحابی کا قول حدیث نبوی کے حکم میں شمار کیا جاتا ہے۔ نبوت کے زمانہ سے پہلے اللہ کے رسول بتوں کی مذمت جو نہیں کرتے تھے اس سے امت کے بت پرستوں نے یہ سمجھا کہ اللہ کے نبی بھی پہلے ہمارے طریقہ پر تھے اس خیال سے ان لوگوں نے { او لتعودن فی ملتنا } کہا ورنہ حقیقت میں اللہ کے نبی شرک سے معصوم ہیں۔ اور ” بساویں گے تم کو اس زمین میں “۔ سورت اعراف میں اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کا ظہور گزر چکا ہے کہ نافرمانی لوگوں کو برباد کر کے رسولوں کے فرمانبردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں بسایا۔ آخر آیت میں فرمایا کہ ان فرمانبردار لوگوں کو اس زمین میں اس لئے بسایا کہ یہ لوگ اللہ سے ڈرتے تھے اور حساب و کتاب کے لئے ایک دن اللہ کے روبرو کھڑے ہونے کا ان لوگوں کے دل میں اندیشہ تھا۔ معتبر سند سے ترمذی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا اس کو عقبیٰ کے نجات کی منزل طے کرنے کا ایسا اندیشہ لگا رہے گا جس طرح بعضے چست مسافر کچھ رات سے راستہ طے کرنا شروع کردیتے ہیں اور سویرے سے مقام پر پہنچ جاتے 2 ؎ ہیں۔ معتبر سند سے طبرانی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کے دل میں عقبیٰ کی درستی کا خیال ہوگا اس کی دنیا بھی اچھی گزرے 3 ؎ گی۔ ان حدیثوں کو آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلی امتوں میں سے جن لوگوں کے دل میں خدا کا خوف تھا ان کی عقبیٰ تو یوں درست ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسولوں کی فرمانبرداری کی توفیق دی اور دنیا یوں درست ہوئی کہ نافرمانوں کو برباد کر کے ان کی جگہ ان فرمانبرداروں کو بسایا گیا۔ آگے بھی جو شخص ایسا ہوگا کہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہوگا تو دین و دنیا میں اس کا یہی انجام ہوگا۔ 1 ؎ الترغیب ص 89 ج 2 باب ترغیب الحاکم وغیرہ من ارضاع الناس الخ 2 ؎ الترغیب ص 260 ج 2 باب الترغیب فی الخوف الخ۔ 3 ؎ مجمع الزوائد 249 ج 10 باب فیمن احب الدنیا۔
Top