Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 38
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ١ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو تَعْلَمُ : تو جانتا ہے مَا نُخْفِيْ : جو ہم چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو نُعْلِنُ : ہم ظاہر کرتے ہیں وَمَا : اور نہیں يَخْفٰى : چھپی ہوئی عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مِنْ : سے۔ کوئی شَيْءٍ : چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي : مین السَّمَآءِ : آسمان
اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں تو سب جانتا ہے۔ اور خدا سے کوئی چیز مخفی نہیں (نہ) زمین میں نہ آسمان میں۔
38۔ 41۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کرنے کے بعد یہ بات کہی کہ اے رب تو خوب جانتا ہے کہ میری غرض اس دعا سے کیا ہے میرا مقصد یہی ہے کہ تیری خوشنودی اور رضا مندی ہو تجھ پر کوئی بات ظاہر اور پوشیدہ چھپی نہیں رہتی تجھے سب باتوں کا علم ہے تجھ پر زمین و آسمان کہیں کی کوئی شی پوشیدہ نہیں ہے اس کے بعد خدا کا شکر کیا کہ بڑہاپے میں جب کہ اولاد ہونے کی کوئی امید نہیں ہوتی تو نے اسماعیل و اسحاق دو صاحبزادے مجھ کو عطا کئے اور میری دعا کو قبول کرلیا پھر اپنے واسطے اور اولاد کے واسطے دعا کی کہ مجھ کو اور میری اولاد کو نماز پر قائم رکھنا اور اپنے لئے اور ماں باپ کے لئے اور سارے مومنوں کے لئے قیامت کے روز مغفرت ہونے کی دعا کی بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ دعا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کی تھی جب تک یہ اپنے ماں باپ کے کفر کے حال پر مر نے سے واقف نہ تھے۔ مکہ کے بسنے اور بیت اللہ کے بنانے سے پہلے کی اس دعاء کو ابراہیم نے { ربنا انک تعلم ما نخفی و ما نعلن } کہہ کر مختصر کردیا لیکن بیت اللہ کے بنانے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل کی اس چھپی ہوئی بات کو ظاہر کیا اور بنی اسماعیل میں نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کی وہ دعا کی جس کا ذکر سورت بقرہ میں گزر چکا ہے اور مسند امام احمد ابن ماجہ اور بیہقی کے حوالہ سے عرباض بن ساریہ ؓ کی معتبر حدیث بھی گزر چکی 1 ؎ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے پہلے اگرچہ میرا نام لوح محفوظ میں خاتم النبین لکھا ہوا تھا لیکن انبیاء کے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں پہلے پہل ابراہیم (علیہ السلام) کو آخری زمانہ میں میرے پیدا ہونے کا حال معلوم ہوا حاصل کلام یہ ہے کہ سورت بقرہ کی آیت { ربنا وابعث فیہم رسولا } [2: 129] اور عرباض بن ساریہ ؓ کی یہ حدیث { ربنا انک تعلم ما نخفی } کی گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے بسنے سے پہلے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) کو جنگل میں چھوڑا تو ان کے دل پر اس کا صدمہ تھا اور اس رنج اور صدمہ کی ادھیڑ پن میں ان کے دل میں یہ بات تھی کہ جس جنگل میں حضرت ہاجرہ اور دودھ پیتے بچے اسماعیل (علیہ السلام) کو چھوڑ رہے ہیں یہاں ایک شہر آباد ہوجاوے اور اسماعیل (علیہ السلام) کی جدائی کا جو رنج ہے اس کا بدلہ ہوجاوے۔ { یوم یقوم الحساب } سے قیامت کا دن مقصود ہے کہ اس دن ساری خلقت حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑی ہوگی۔ ترمذی مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے ابی برزہ ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کی معتبر روایتیں ایک جگہ گزر چکی 2 ؎ ہیں۔ کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا (1) تمام عمر کن کاموں میں گزاری (2) جوانی میں کیا کیا (3) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں خرچ کیا (4) دین کی کوئی بات سیکھی تو اس پر کیا عمل کیا یہ حدیثیں { یوم یقوم الحساب } کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن حساب کیوں کر ہوگا۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 259
Top