Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور (مومنو ! ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
42۔ 43۔ اللہ پاک نے اس آیت میں حضرت ﷺ کو اس بات کی خبر دی کہ تم یہ گمان نہ کرو خدا ظالموں کے عمل سے غافل ہے بلکہ اللہ نے ان کو اس دن کے واسطے مہلت دے رکھی ہے جب قیامت کے دن آسمان کے دروازے کھول کر فرشتے اترنے لگیں گے اور لوگوں پر عذاب کریں گے اس وقت ان کی آنکھیں ادھر ہی کو لگ جاویں گی اور جب اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکیں گے تو قبروں سے نکل نکل کر جلدی جلدی میدان محشر کی طرف بھاگنے لگیں گے اور نظر نیچی نہ کریں گے اور نہ پلک جھپکائیں گے ان کی دل کی حالت خوف و دہشت کی وجہ سے اس وقت ایسی ہوگی جیسے کوئی چیز اڑی جاتی ہے مطلب یہ ہے کہ دہشت کے سبب سے دل بےٹھکانے ہوجاوے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور اوسط طبرانی میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگرچہ موت انسان کے لئے ایک سخت چیز ہے لیکن موت کے بعد جو باتیں پیش آنے والی ہیں وہ موت سے زیادہ سخت ہیں۔ 1 ؎ صحیح ابن حبان مسند ابی یعلی اور طبرانی کبیر میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کی صحیح روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ کی گرمی سورج کی گرمی اور پسینہ کی تکلیف محشر کے میدان میں ایسی ہوگی کہ اس کے سبب سے لوگ گھبرا کر یہ کہویں گے کہ اس سے تو ہم دوزخ میں بھیج دئیے جاویں 2 ؎ تو اچھا ہے۔ یہ حدیثیں اور اس قسم کی اور صحیح حدیثیں آیت کے ساتھ ملائی جاویں تو حشر کے دن لوگوں کی آنکھ کا حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جانا اور ان کے دلوں کا بےٹھکانے ہوجانا اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ 1 ؎ صححا الزاوائد ص 334 ج۔ 1 باب فی الموت وفی مایکون بعد الموت۔ 2 ؎ الترغیب ص 295 ج 2 فصل نے الحشر وغیرہ مجمع الزوائد ص 336 ج۔ 1 باب ماجاء فی ہول المطلع و شدۃ یوم القیامۃ۔
Top