Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 44
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ١ؕ اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍۙ
وَاَنْذِرِ : اور ڈراؤ النَّاسَ : لوگ يَوْمَ : وہ دن يَاْتِيْهِمُ : ان پر آئے گا الْعَذَابُ : عذاب فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخِّرْنَآ : ہمیں مہلت دے اِلٰٓى : طرف اَجَلٍ : ایک دن قَرِيْبٍ : تھوڑی نُّجِبْ : ہم قبول کرلیں دَعْوَتَكَ : تیری دعوت وَنَتَّبِعِ : اور ہم پیروی کریں الرُّسُلَ : رسول (جمع) اَوَ : یا۔ کیا لَمْ تَكُوْنُوْٓا : تم نہ تھے اَقْسَمْتُمْ : تم قسمیں کھاتے مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ زَوَالٍ : کوئی زوال
اور لوگوں کو اس دن سے آگاہ کردو جب ان پر عذاب آجائے گا۔ تب ظالم لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مدت مہلت عطا کر تاکہ ہم تیری دعوت (توحید) قبول کریں اور تیرے پیغمبروں کے پیچھے چلیں (تو جواب ملے گا) کیا تم پہلے قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے ؟ تم کو (اس حال سے جس میں تم ہو) زوال (اور قیامت کو حساب اعمال) نہیں ہوگا۔
44۔ 46۔ اس آیت میں حضرت ﷺ کو حکم ہوا ہے کہ تم لوگوں کو یہ ڈر سنا دو کہ قیامت میں جب عذاب ہوگا اس وقت یہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہے اور راہ حق پر نہیں آئے یہ کہیں گے کہ اے خدا اک ذرا ہمیں مہلت دے دے تو ہم تیرے حکم کو قبول کرلیں اور رسول پر ایمان لے آئیں۔ اس کے جواب میں اللہ پاک ان سے کہے گا کہ کیا تم نے دنیا میں قسم کھا کر یہ بات نہیں کہی تھی کہ آخرت کوئی چیز نہیں ہے مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا کیسا ہمیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کوئی جزا و سزا نہیں ہے اور کیا تم ایسی سرزمین میں نہیں رہتے تھے جہاں تم سے پہلے منکرین حشر گزر چکے تھے اور انہیں باتوں پر ان کا انجام کیا ہوا کس طرح ان پر عذاب بھیجے اور کیسی بےبسی کی حالت میں ان کو ہلاک کیا اور تم لوگوں کو مثالیں دے دے کر سمجھایا گیا مگر تم لوگوں نے کچھ غور وفکر نہ کیا اور نہ عبرت حاصل کی اور ان لوگوں نے بہتیرے مکر کئے کہ کسی طرح حق بات ضعیف ہوجائے اور وہ مکر ان کے اگرچہ ایسے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ جاتا مگر خدا اپنے دین کا حامی رہا اور کچھ ان کی پیش نہ چلی۔ معتبر سند سے صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں انس بن مالک ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا گناہ کے بعد جس شخص کے دل میں شرمندگی ہو اس شخص کی وہی توبہ ہے ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے دنیا اور عقبیٰ کی حالت میں جو فرق ہے وہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دنیا میں فقط دل کی ندامت توبہ ہے اور عقبیٰ میں نافرمان لوگ دل کی ندامت کا زبان سے بھی اقرار کر کے دنیا میں دوبارہ آنے اور فرمانبردار بن کر عمر گزارنے کی خواہش کریں گے تو وہ خواہش منظور نہ ہوگی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ قیامت کے دن سے ان لوگوں کو دنیا ہی میں جو کچھ ڈرانا ہے ڈرادیا جاوے ورنہ قیامت کے دن کوئی ڈر کوئی ندامت کار آمد نہیں ہے۔ سورت النحل میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ نہ ہوں گے اسی کو فرمایا تم لوگ تو اس بات پر قسمیں کھاتے تھے کہ دنیا کی زندگی کی حالت ٹل کر اور کوئی دوسری حالت بدلنے والی نہیں پھر اب دوبارہ زندہ ہونے کو تم سے ٹالا جاوے تو ٹال دو ۔ ملک شام کے سفر میں مشرکین مکہ کا گزر پہلی امتوں کی اجڑی ہوئی بستیوں پر ہوا کرتا تھا اسی کو فرمایا کہ ان بستیوں کا حال دیکھ کر تم لوگوں نے عبرت کیوں نہیں حاصل کی اور مثال کے طور پر ان پہلی امتوں کا حال قرآن میں سمجھایا گیا تو اس کو تم نے اس کان سے سن کر اس کان سے کیوں اڑا دیا نافرمان لوگوں کے مکرو فریب یہی تھے۔ مثلاً جیسے فرعون نے جادو گروں کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا جس کا ذکر قرآن شریف میں کئی جگہ ہے یا مثلاً یہی تھے مثلاً جیسے فرعون نے جادوگروں کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا جس کا ذکر قرآن شریف میں کئی جگہ ہے یا مثلاً جیسے مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کے شہید کر ڈالنے کا قصد کیا جس کا ذکر سورت انفال میں گزر چکا ہے۔
Top