Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 46
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
وَ : اور قَدْ مَكَرُوْا : انہوں نے داؤ چلے مَكْرَهُمْ : اپنے داؤ وَ : اور عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ وَ : اور اِنْ : اگرچہ كَانَ : تھا مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ لِتَزُوْلَ : کہ ٹل جائے مِنْهُ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ
اور انہوں نے (بڑی بڑی) تدبیریں کیں اور انکی (سب) تدبیریں خدا کے ہاں (لکھی ہوئی) ہیں۔ گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی) تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔
47۔ اللہ پاک نے اس آیت میں اپنے رسول برحق کو خطاب کر کے مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری مدد کروں گا اور کفار پر تمہیں غلبہ دوں گا دین حق کو پھیلا دوں گا تو وہ اس کو پورا نہیں کرے گا کیونکہ خدا کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کرتا ہے پھر وہ اپنے رسول سے کیوں کر جھوٹا وعدہ کرے گا غرض کہ اللہ نے مسلمانوں کی یہ تسکین و تسلی کی ہے کہ تم اطمینان رکھو جو تم سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کروں گا اور ان کافروں کے ساتھ بھی نہایت انصاف سے فیصلہ کردوں گا کیوں کہ خدا سب پر غالب ہے اس سے بڑھ کر کوئی بدلہ لینے والا نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں دو جگہ { ولا تحسبن اللہ } جو فرمایا ہے اس سے ان مسلمانوں کی تسکین مقصود ہے جو مشرکوں کے ستائے سے گھبرا کر آنحضرت ﷺ سے اس کی شکایت اور مشرکوں کے حق میں بددعا کرنے کی آپ سے خواہش کرتے تھے چناچہ صحیح بخاری میں خباب ابن الارت کی حدیث ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے مشرکوں کے ستانے کی شکایت اور مشرکوں کے حق میں بددعا کرنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ اسلام کی مدد کے وعدہ کو ضرور پورا کرے گا۔ مشرک لوگ جس قدر تم کمزور مسلمانوں کو ستاتے ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں ہے تم سے پہلے نیک لوگوں کو مخالفوں کے ہاتھ سے اس سے بھی زیادہ تکلیفیں پہنچی ہیں۔ یہاں تک کہ بعضے نیک لوگ پہلے زمانے میں آروں سے چیرے 1 ؎ گئے ہیں غرض { ولا تحسین اللہ } کی صحیح حدیث گویا تفسیر ہے جس سے رسول مقبول کو اس خطاب سے یاد فرمانے اور مخاطب ٹھہرانے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک 2 ؎ جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو بالکل ہلاک کردیتا ہے یہ حدیث { ان اللہ عزیز ذوانتقام } کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اس نے مکہ کے نافرمان سر کشوں کو مہلت دی اور پھر بدر کی لڑائی کے وقت جب پکڑا تو ان سرکشوں کی ساری سرکشی خاک میں مل گئی چناچہ اس کی تفصیل انس بن مالک ؓ کی صحیح روایتوں کے حوالہ سے اوپر گزر چکی 3 ؎ ہے۔ اس کے بعد اپنی مدد سے مکہ کو فتح کرادیا جس سے باقی کے اہل مکہ اسلام کے مددگار بن گئے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 1027 ج 2 کتاب الاکراہ۔ 2 ؎ تفسر ہذا 205۔ 224۔ 235۔ 3 ؎ جلد ہذا 202۔ 208۔ 224۔
Top