Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 49
وَ تَرَى الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِۚ
وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع) يَوْمَئِذٍ : اس دن مُّقَرَّنِيْنَ : باہم جکڑے ہوئے فِي : میں الْاَصْفَادِ : زنجیریں
اور اس دن تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
49۔ 51۔ ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ جب قیامت کے دن یہ آسمان و زمین نہ ہوں گے اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے کی جاوے گی تو جن لوگوں نے دنیا میں فساد مچا رکھا تھا خود بھی راہ حق سے علیحدہ رہے اور اوروں کو بھی علیحدہ رکھا تھا یہ مجرم طوق اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے آویں گے ان کا کرتہ گندھک کے تیل کا ہوگا جس میں ذرا سی آگ لگنے سے بھڑک اٹھے گی اور بجھائے نہ بجھے گی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے قطران کی یہ تفسیر کی ہے کہ ان کے کرتے پگھلے ہوئے تانبے کے ہوں گے خدا ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا جس کا عمل اچھا ہوگا تو اپنی رحمت میں شامل کرے گا اگر عمل برے ہوں گے تو ویسا بدلہ دے گا اور خدا حساب کتاب لینے میں کچھ بھی دیر نہ لگائے گا جھٹ پٹ فارغ ہوجاوے گا۔ مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابو مالک اشعری ؓ کی ایک حدیث ہے کہ حضرت نے فرمایا میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی باقی ہیں لوگ اس کو چھوڑتے نہیں ہیں حسب و نسب کا فخر کرتے ہیں، تاروں کی گردش سے مینہ طلب کرتے ہیں، مردے پر نوحہ کرتے ہیں فرمایا نوحہ کرنے والی کو ایک کرتہ گندھک کے تیل کا یا پگھلے ہوئے تانبے کا پہنایا جاوے گا 1 ؎۔ اصل میں قطران ایک تیل ہے جو کھجلی والے اونٹوں کی کھال پر لگایا جاتا ہے جس سے کھجلی جل جاتی ہے اور اونٹ کی کھال میں زخم پڑجاتا ہے اس تیل میں یہ خاصیت بھی ہے کہ آگ میں ڈالنے سے اس کی آنچ بہت تیز ہوتی ہے۔ گندھک کے تیل میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اس لئے بعضے مفسروں نے قطران کے معنے ” گندھک “ کے تیل کے لکھے ہیں شاہ صاحب نے ترجمے میں یہی قول لیا ہے سلف میں سے جن علماء نے قطران کے معنے پگھلے ہوئے تانبے کے کئے ہیں۔ انہوں نے قطر کو الگ لفظ قرار دیا ہے اور ران کو الگ کیونکہ پگھلے ہوئے تانبے کو کہتے ہیں اور ران نہایت گرم کھولتی ہوئی چیز کو حاصل کلام یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کا اثر اور تیزی بڑھانے کے لئے یہ چیزیں لباس کی طرح دوزخیوں کے جسم پر ملی جاویں گے۔ شرک کے کلمے زبان سے نکلتے ہیں اور دل میں شرک کا اعتقاد ہوتا ہے اس واسطے یہاں منہ کے جلنے کا اور ویل لکل میں دل کے جلنے کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ { اذا السماء انشقت } میں آوے گا کہ جن لوگوں کے اعمال نامے سیدھے ہاتھ میں دیئے جاویں گے ان کا حساب تو سرسری طور پر آسانی سے یوں ہوجاوے گا کہ بعضوں کے گناہ معاف ہوجاویں گے اور بعضوں کے گناہ نیکیوں سے بدل دئیے جاویں گے چناچہ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر 2 ؎ سے اور صحیح مسلم میں ابو ذر 3 ؎ سے جو روایتیں ہیں 4 ؎ ان میں اسکا ذکر تفصیل سے ہے اس صورت میں کرید اور جانچ سے انہیں لوگوں کا حساب ہوگا جو علم الٰہی کے موافق عذاب کے قابل ٹھہریں گے اور اسی واسطے ان کے نامہ اعمال الٹے ہاتھ میں دئیے جاویں گے لیکن ان لوگوں کے سب کام اللہ کی نظر میں ہیں سب غیب کا حال اسی کو معلوم ہے اس لئے یہ کرید اور جانچ بھی جلدی طے ہوجاوے گی۔ اس جانچ کے وقت جو لوگ نامہ اعمال کو جھٹلادیں گے ان کے ہاتھ پیروں سے گناہوں کی گواہی دلوائی جا کر ان کا حساب طے ہوجاوے گا۔ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت اس باب میں گزر چکی ہے حاصل یہ ہے کہ یہ حدیثیں اور اس قسم کی اور صحیح حدیثیں { ان اللہ سریع الحساب } کی گویا تفسیر ہیں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 485 باب الحساب والقصاص والمیزان۔ 2 ؎ ایضاً ص 492 باب احوض والشفاعۃ۔ 3 ؎ دیکھئے فتح الباری ص 179 ج 7 شرح باب من نوقتی الحساب عنب۔ 4 ؎ صحیح مسلم ص 409 ج 2 کتاب الزھد۔
Top