Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔
7۔ اس سے پہلے کی آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے زبانی ان کی قوم بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ خدا نے تم پر کیا کیا احسان کئے فرعون کے ظلم سے تمہیں اور تمہارے بال بچوں کو بچایا جس کا شکر تم کسی طرح ادا نہیں کرسکتے پھر کہا کہ خدا نے یہ حکم موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت دے رکھا ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ نعمت ملے گی اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ معتبر سند سے انس ؓ کی ایک حدیث بخاری نے اپنی تاریخ میں نقل کی ہے کہ منجملہ ان پانچ چیزوں کے جن کے سبب سے دوسری پانچ چیزیں انسان کو مل جاتی ہیں ایک شکر بھی ہے کہ شکر کی عادت سے نعمت کی زیادہ ہوجاتی 1 ؎ ہے۔ یہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت کا ایک ٹکڑا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل جس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دشمن فرعون کو ہلاک کردینے کا احسان تم پر کیا ہے اس کا یہ حکم ہے کہ اس کی اس نعمت کی شکر گزاری اگر تم کرو گے تو وہ تم کو اور نعمتیں دیوے گا اور اگر تم اس کی نعمت کی ناشکری کرو گے تو تم نے دیکھ لیا کہ ناشکری کا وبال فرعون اور اس کی قوم پر کیسا پڑا۔ شکر کے مقابلہ میں کفر کے معنے ناشکری کے ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جب تک شکر گزاری کی عادت رہی اس وقت تک نبوت بادشاہت سب کچھ رہا اور جب ان میں ناشکری پھیلی تو کچھ بھی نہ رہا۔ شکر گزاری کے زمانے تک بنی اسرائیل میں اور اس امت میں جو اقبال مندی رہی اور بعد اس کے ناشکری کے سبب سے اس اقبال مندی میں جو زوال آیا وہ سب قصے گویا آیت کی تفسیر ہیں معتبر سند سے زوائد مسند میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا احسان مندی کے طور پر اللہ کی نعمت کا تذکرہ زبان پر لانا یہ اللہ کی نعمت کی شکر گزاری ہے اور اللہ کی نعمت کو چھپانا اور بھول جانا یہ ناشکری ہے اور تھوڑی نعمت کی ناشکری بڑی نعمت کی ناشکری سکھا دیتی 2 ؎ ہے۔ اور لوگوں کے احسان کی ناشکری آدمی کو اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناشکری کی حد تک پہنچا دیتی ہے شکر گزاری اور ناشکری کی تفسیر میں اس حدیث کو بڑا دخل ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عمرو بن عوف انصاری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ حالی کا کچھ اندیشہ نہیں اندیشہ تو یہ ہے کہ پہلی امتوں کی طرح ان کو فارغ البالی ہوگی اور اس فارغ البالی کے زمانہ میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہو کر ایک دوسرے کی ریس اور حرص کرنے لگے گا۔ اور آخر کو پہلی امتوں کی طرح ان پر بھی تباہی آجاوے گی۔ یہ حدیث بنی اسرائیل اور اس امت کے شکر گزاری اور نا شکری کے زمانے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان دونوں امتوں نے جب تھوڑی نعمت پر شکر گزاری کا برتاؤ کیا تو پوری فارغ البالی حاصل ہوئی اور پوری فارغ البالی کے زمانے میں جب ناشکری کے ڈھنگ برتے تو بربادی آگئی۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 234 بحوالہ مسند امام احمد ص 278 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 368۔
Top