Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 89
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ
وَقُلْ : اور کہ دیں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَنَا : میں النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : ڈرانے والا علانیہ
اور کہہ دو کہ میں تو علانیہ ڈر سنانے والا ہوں۔
89۔ 91۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے رسول صلعم کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں سے کہہ دو کہ میں ویسا ہی ڈرانے والا ہوں جس طرح پہلے رسول نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا اور قوم نے ان رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایذا رسانی پر قسمیں کھا بیٹھے آخر ان پر عذاب نازل ہوا مثلاً جیسے ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت پر آپس میں قسما قسمی کی تھی جس کا ذکر سورت النحل میں آوے گا۔{ کما انزلنا علی المقتسمین } کی تفسیر میں مفسروں کا بہت اختلاف ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ قول کہ یہ لوگ وہ اہل کتاب ہیں جنہوں نے قرآن کی طرح سے تقسیم کر ڈالی کہ بعض احکام پر اس کے ایمان لائے اور بعض سے بالکل انکار کرتے ہیں 1 ؎۔ دراصل جو باتیں قرآن مجید کی ان کی کتابوں سے ملتی جلتی ہیں ان کو مانتے ہیں اور جو باتیں ان سے مخالف ہیں ان کا انکار کرتے ہیں اور عکرمہ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہود نے مسخرا پن سے یہ بات آپس میں مقرر کرلی تھی کہ یہ سورت قرآن کی میری ہے اور دوسرے نے یہ کہا کہ یہ سورت میری ہے غرض قرآن کی سورتوں کی تقسیم کر ڈالی تھی اور بعضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اس لئے ان کو مقتسمین کہا گیا بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ مقتسمین کفار قریش ہیں یہ چند آدمی تھے انہوں نے ولید بن مغیرہ کے حکم حج کے زمانے میں مکہ کے رستوں کو روکا کہ مسافر شخص ادھر سے گزرے اس کو محمد ﷺ کی طرف سے بہکایا جائے اور یہ کہا جائے (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ یہ شخص مجنون ہیں ہمارے دین سے نکل گئے ہیں کوئی ان سے دھوکا نہ کھانا اور کبھی جادوگر کہتے تھے اور کبھی شاعر کہہ دیتے تھے اسی طرح کبھی قرآن کو جادو کہتے تھے کبھی پہلے لوگوں کی کہانیاں حاصل کلام یہ ہے کہ مقتسمین کے معنے بعض سلف نے تقسیم کرنے والوں کے لئے ہیں اور بعضوں نے قسم کھانے والوں کے، عربی زبان میں مقتسمین کا لفظ تقسیم کرنے والوں کے معنوں میں زیادہ مشہور ہے اور قرآن شریف میں عرب کے مشہور لفظوں میں نازل ہوا ہے اس لئے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ان ہی معنے کو پسند کیا ہے 2 ؎۔ آگے کی آیت میں آتا ہے کہ مسخرا پن کے طور پر قرآن کے ناموں کی تقسیم ٹھہرانے والے لوگ کہ ان میں سے کوئی قرآن کو جادو کہتا تھا کوئی شعر اور کوئی پہلی کہانیاں ان میں سے اکثر لوگ طرح طرح کے مرضوں سے فوراً ہلاک ہوگئے اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کہ تم ان باقی لوگوں کو ڈرا دو کہ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت کے موافق راہ راست پر نہ آویں گے تو وہی انجام ان کا ہوگا جو مسخرا پن کے طور پر قرآن کے ناموں کی تقسیم ٹھہرانے والوں کا ہوا اور پھر ان سب کو اپنے عملوں کے موافق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جواب دہی کرنی پڑے گی۔ جن علمائے سلف نے مقتسمین کی تفسیر اہل کتاب کو قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی حالت پر بھی آیت کا مضمون ہجرت کے بعد صادق آیا اور اس مکی سورت میں اہل کتاب کا ذکر شان نزول کے طور پر نہیں آسکتا کیونکہ قرآن شریف میں اہل کتاب کا ذکر مدینہ کی ہجرت کے بعد شروع ہوا ہے۔ تفسیر نیشا پوری میں شان نزول کے طور پر یہود کے ذکر کو پیشین گوئی قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مکی آیتوں میں یہود پر جس عذاب کے آنے کا ذکر تھا اس کا ظہور ہجرت کے بعد اس طرح ہوا کہ یہود کے تین قبیلے بنی قینقاع بنی قریظہ جو مدینہ کے گردونوح میں رہتے تھے۔ ان میں سے بنی قینقاع اور بنی نضیر جلاوطن ہوئے اور بنی قریظہ کا قتل ہوا۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت جس میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اس طرح جوش میں آن کر لوگوں کو دوزخ سے ڈرایا کرتے تھے کہ آپ کی چادر کاندھے پر سے اتر کر پیروں میں آن پڑا کرتی تھی 3 ؎۔ ترمذی طبرانی اور مسند بزار کے حوالہ سے ابی برزہ ؓ اور معاذ بن جبل کی صحیح روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں 4 ؎ کہ قیامت کے دن ہر شخص سے چار باتوں کا سوال کیا جاوے گا۔ (1) تمام عمر کن کاموں میں گزاری۔ (2) جوانی میں کیا کیا (3) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (4) دین کی باتوں پر کیا عمل کیا ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگوں کے ڈرانے کے حکم کی تعمیل آنحضرت ﷺ بڑی سرگرمی سے کیا کرتے تھے۔ تمام عمر کے کاموں کی جواب دہی کے وقت ان لوگوں کو بڑی دقت بھگتنی پڑے گی جن کی تمام عمر اللہ کے رسول کو جادو گر اور کلام الٰہی کو جادو گر کہنے میں گزری۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 683 ج 2 باب قولہ الذین جعلوا القرآن حضین۔ 2 ؎ ابن جریر ص 63 ج 4۔ 3 ؎ الترغیب ص 312 ج 2 الترغیب من العادالخ۔ 4 ؎ تفسیر جلد ہذاص 289۔
Top