Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ
وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : تم نہ کہو لِمَا : وہ جو تَصِفُ : بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُكُمُ : تمہاری زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ ھٰذَا : یہ حَلٰلٌ : حلال وَّھٰذَا : اور یہ حَرَامٌ : حرام لِّتَفْتَرُوْا : کہ بہتان باندھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : بہتان باندھتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ لَا يُفْلِحُوْنَ : فلاح نہ پائیں گے
اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آجائے مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو۔ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا بھال نہیں ہوگا۔
116۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور سلف نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے سانڈ اور جانور اپنی طرف سے حرام جو ٹھہرا رکھے تھے جس کا ذکر سورت انعام میں گزر چکا ہے اصل آیت اس حکم میں نازل ہوئی ہے حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ شریعت اللہ کے حکم کا نام ہے اس لئے جب تک اللہ یا رسول وقت جو اللہ کی طرف سے پیغام ہدایت لے کر آتے ہیں کسی چیز کو حلال یا حرام یا جائز ناجائز بیان نہ کریں امت میں سے کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ اپنی طرف سے کسی چیز کے حرام یا حلال ٹھہرادے۔ چناچہ مسند بزار اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابودرداء ؓ کی معتبر روایت اس باب میں اوپر گزر چکی ہے 1 ؎۔ اس صورت میں یہ اللہ پر بہتان ہے کہ ایک بات اللہ نے فرمائی ہی نہیں اور خواہ مخواہ آدمی اپنے منصوبہ سے اس کو اللہ کا حکم ٹھہرا دے۔ یہ منصب تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ہی دیا ہے کہ بذریعہ وحی کے اللہ کی مرضی یا نامرضی پہچان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے یا ناجائز نہیں ہے آیت کے اس حکم میں تمام بدعتیں قولی و فعلی واعتقادی داخل ہیں کیونکہ بدعت وہی چیز ہے جس کا پتہ شریعت کے حکم سے تو لگتا نہیں اور لوگ اس کو شریعت کا حکم جان کر کرتے ہیں چناچہ صحیحین کی حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بدعت کی تعریف جو فرمائی ہے 2 ؎۔ اس کا حاصل یہی ہے کہ دین میں ایسی بات کا نکالنا جس کا پتہ قرآن اور حدیث میں نہ ہو اور فقہ کے ان مفتیوں کے فتوے جن کی تائید کسی حکم شریعت سے نہیں ہوتی یا کوئی حکم شریعت کسی فتوے کے مخالف ہے سب کے سب اس حکم میں داخل ہیں کیونکہ جب حکم شریعت ٹھہرانے کا حق خاص اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے تو جس عالم کے فتوے کی تائید حکم شریعت سے نہ ہو اس طرح کے فتوے کو کس سند سے حکم شریعت کہا جاسکتا ہے اسی واسطے ترمذی، نسائی، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بریدہ ؓ سے جو روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے شریعت میں فتویٰ دینے والے عالموں کی تین قسمیں ٹھہرا کر ایک قسم کے لوگوں کو جنتی اور دو قسم کے لوگوں کو جہنمی فرمایا ہے 3 ؎۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے 4 ؎۔ حاصل مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ شریعت کے قاضی تین طرح کے شخص ہیں ایک وہ کہ جو شریعت میں کوئی حکم یا فتویٰ دیوے وہ انجانی سے نہ ہو بلکہ خوب تلاش کے بعد شریعت کے حکم کے موافق حق فتویٰ اور حکم دیوے دوسرا وہ کہ شریعت کا حکم اس کو معلوم تو ہو مگر کسی دنیا کے لالچ یا رعایت کے سبب سے خلاف حکم شریعت کے فتویٰ یا حکم دیوے تیسرا وہ کہ اصل حکم شریعت کا تو اس کو معلوم نہیں مگر اپنی رائے سے ایک بات کو شریعت کا حکم ٹھہرا کر فتویٰ یا حکم دیوے پہلی قسم کا قاضی اور مفتی جنتی ہے اور پچھلی دونوں قسموں کے قاضی اور مفتی جہنمی 5 ؎۔ ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس نے قرآن شریف کی تفسیر بغیر سند شرعی کے اپنی عقل سے کی یا حدیث کی روایت اٹکل سے بغیر خوب یاد کے کردی اس کا ٹھکانا دوزخ میں تیار ہے۔ 6 ؎۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی سہل بن عبد اللہ کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین نے اس کو معتبر کہا ہے۔ ترمذی کی دوسری سند میں سہل بن عبد اللہ نہیں ہے۔ اس سند کو ترمذی نے حسن کہا ہے 7 ؎۔ ابوداؤد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ایک عالم سے شرعی کوئی مسئلہ پوچھے اور وہ عالم اس شخص کو غلط مسئلہ بتا دیوے اور ان پڑھ شخص اس مسئلہ پر عمل کرلیوے تو اس غلط عمل کا وبال اس غلط مسئلہ بتلانے والے عالم پر رہے گا ابوداؤد نے اس حدیث کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا 8 ؎۔ علاوہ اس کے یہ حدیث مسند امام احمد میں بھی ہے جس کی سند معتبر ہے۔ صحیح مسلم میں ابن سیرین سے روایت ہے کہ مسلمان شخص کو دین کا مسئلہ کسی عالم سے حاصل ہو تو اس کو ذرا جانچ لینا چاہیے کہ اس عالم نے مسئلہ کے بتلاتے میں کوئی غلطی تو نہیں کی ہے غرض حاصل بہت سی احادیث اور آثار کار یہ ہے کہ عالم کو شریعت کا مسئلہ بتلانے میں اس بات کی بڑی احتیاط چاہیے کہ حکم شریعت میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اور ان پڑھ لوگوں کو ذرا اس بات کی احتیاط چاہیے کہ شریعت کے مسئلہ کو ایک دو جگہ کے چار عالموں سے پوچھ لیا کریں تاکہ حکم شریعت میں کچھ غلطی ہو تو نکل جاوے ان پڑھ سے ان پڑھ لوگوں کو معاملات دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک سودا وہ لیتے ہیں تو دس دکانیں پھر کرلیتے ہیں پھر دین میں ایسی کاہلی کیوں کر جائز ہوسکتی ہے کہ اڑتے اڑاتے ٹھکانے اور بےٹھکانے جس سے جو بات سن لی اسی کو اپنا دین قرار دے لیا کیا دین دنیا سے بھی گھٹ کی چیز ہے۔ حدیث اور تفسیر کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے عالم لوگوں پر تو اللہ کی تنگی اس سبب سے ہوئی کہ توریت میں جو جو تبدیلیاں انہوں نے کرلیں تھیں آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے اور قرآن شریف کے نازل ہونے کے بعد بھی وہ ان تبدیلیوں پر جمے رہے اور عام ان پڑھ یہود پر اس سبب سے بلا آئی کہ باوجود حق بات کے معلوم ہوجانے کے وہ اپنے عالموں کے غلط قول پر اڑے رہے علماء نے اس بحث کی ذیل میں یہ بیان لکھا ہے کہ صحیح حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ یہود نے جو کچھ کیا ہے وہ سب میری امت میں ہوگا بلکہ یہود کے بہتر فرقے تھے۔ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے 9 ؎۔ اس حدیث کی رو سے یہ بھی خدا اور رسول کی خفگی کے قابل ایک فرقہ ہے جو یہود میں بھی تھا اور اس امت میں بھی ہے کہ شریعت کی ایک حق بات معلوم ہوجانے کے بعد کسی عالم یا استاد یا پیر کے غلط قول پر اڑے رہتے ہیں نجات عاقبت کے چاہنے والے مسلمان کو لازم ہے کہ اللہ رسول کی اطاعت پر کسی عالم استاد پیر کی اطاعت کو نہ مقدم گنے کیوں کہ عاقبت کی نجات اللہ کی مرضی کے موافق کام کرنے پر منحصر ہے اور اللہ کی مرضی کا بتلانا خاص صاحب وحی کا منصب ہے۔ 1 ؎ زیر آیات سابقہ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 27 باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 324 باب العمل فی التعتاء الخ والترغیب ص 80 ج 2 باب ترغیب من ولی شیئا من امور المسلمین الخ۔ 4 ؎ المستدرک ص 90 ج 4۔ 5 ؎ ص 119 ج 2 باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برایہ۔ 6 ؎ سہل بن عبد اللہ حضرت جندب ؓ کی روایت کی سند میں ہے جو حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث مذکور کے بعد ہے (ح، ح) 7 ؎ یعنی وہی حدیث جن کا حوالہ ابھی اوپر گزرا۔ 8 ؎ ص 514 باب التوقف فی الفتیا از کتاب العلم۔ 9 ؎ جامع ترمذی 88۔ 89 ج 2 باب افتراق ھذہ الامۃ۔
Top