Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (لوگوں کے) امام (اور) خدا کے فرمانبرادار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
120۔ 123۔ عرب اپنے کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی نو صفتیں بیان فرمائیں تاکہ مشرکین مکہ قائل ہوں کہ ان میں ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی بھی صفت نہیں ہے پہلی صفت ابر اہیم (علیہ السلام) کی یہ ہے کہ ابراہیم اپنے اکیلے دم سے بجائے ایک امت کے تھے ان کے زمانہ میں سارے لوگ کافر تھے صرف ابراہیم (علیہ السلام) حق پرست تھے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وقت میں اکیلے آپ ہی مومن تھے۔ اس لئے اللہ پاک نے ان کے حق میں یہ فرمایا کہ ابراہیم اپنے دم سے خود ایک امت تھے دوسری صفت ابر اہیم (علیہ السلام) کی اللہ پاک نے یہ بیان کی کہ قانت تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے پکے فرماں بردار تھے خدا کے ہر ایک امر کے مطیع اور ہر نبی سے باز رہنے والے تیسری صفت یہ بیان کی کہ ضعیف تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر توحید بھری ہوئی تھی۔ چوتھی صفت یہ بیان کی کہ وہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں بھی شرک کرنے والوں میں نہیں تھے۔ بچپن اور کم سنی میں اپنی فطری عقل سے یہ قرار کیا کہ بت یا دوسرے معبودات جس کو مشرکین معبود مانتے ہیں وہ انہیں دوست نہیں رکھتے اور صاف کہہ دیا کہ لا احب الا فلین پھر اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بت خانہ میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا جس کے سبب سے آگ میں ڈالے گئے پانچویں صفت یہ بیان کی کہ خدا کی نعمتوں کے نہایت شکر گزار بندے تھے آپ کا قاعدہ تھا کہ بغیر مہمان کے کسی روز کھانا نہیں کھاتے تھے ایک روز کا ذکر ہے کہ کوئی مہمان آپ کے یہاں نہیں آیا آپ نے کھانے کے وقت سے زیادہ دیر تک انتظار کیا کہ شاید کوئی مہمان آجائے اتنے میں چند فرشتے انسان کی صورت میں آپ کے یہاں وارد ہوئے آپ نے انہیں کھانے کو بلایا انہوں نے ایک بہانہ آپ کے سامنے پیش کیا کہ ہمیں جذام ہے یہ سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تو ہم پر واجب ہوگیا کہ ہم تمہارے ساتھ کھانا کھائیں کیونکہ خدا کا یہ نہایت شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مرض سے محفوظ رکھا اور تم اس بلا میں گرفتار ہو چھٹی صفت یہ بیان کی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے منتخب کیا ساتویں صفت یہ بیان فرمائی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ جل شانہ نے دین اسلام کے سیدھے رستے کی ہدایت کی آٹھویں صفت یہ بیان کی کہ اللہ پاک نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں بہتری بخشی کہ سارے مذاہب و ملت کے لوگ آپ کو اچھے نام سے یاد کرتے ہیں کیا یہود کیا نصاری اور عرب کو تو خاص کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وجہ سے فخر حاصل ہے نویں صفت یہ بیان فرمائی کہ جس طرح دنیا میں ابراہیم (علیہ السلام) پر خدا کا فضل رہا ویسے ہی آخرت میں بھی خدا ان پر مہربان اور جنت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑا درجہ عطا کیا جاوے گا یہ صفات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیان فرما کر اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو خطاب کیا کہ اسی لئے اللہ نے تم پر وحی کے ذریعہ سے یہ حکم نازل کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور طریقے کو اختیار کرو وہ طریقہ شرک سے بالکل الگ ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو شخص نیک راہ نکالے اس کو نیک راہ نکالنے کا اجر جدا دیا جاوے گا اور جتنے آدمی اس نیک راہ پر چلیں گے ان سب کے برابر اجر اس نیک راہ نکالنے والے کو جدا دیا جاوے گا حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں سے نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کی جو دعا کی تھی اس کا ذکر سورت بقرہ میں اور انہوں نے اپنی اولاد کے حق میں بت پرستی سے بچنے کی جو دعا کی تھی اس کا ذکر سورت ابراہیم میں گزر چکا ہے۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے عرباض بن ساریہ ؓ کی معتبر حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی پیدائش کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا اثر فرمایا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے بعد فرمایا کہ جزیرہ عرب کی بت پرستی سے شیطان اب مایوس ہوگیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک دعا کے اثر سے نبی آخر الزمان ﷺ کا پیدا ہونا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہی دوسری دعا کے اثر سے بنی اسماعیل کی بت پرستی سے شیطان کا مایوس ہوجانا اس سب کا اجر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملنے والا ہے جو بت پرستی سے بچنے والی ایک امت کے اجر کے برابر ہے اسی واسطے اجر کے حساب سے اکیلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ابراہیمی گھرانہ سے کہیں نبوت کے باہر نہ جانے کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کیا اس کا ذکر سورت بقرہ میں گزر چکا اور اس وعدہ کا ظہور سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک مدت تک اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت رہی اور پھر اسماعیل بن ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت کا خاتمہ ہوا۔ یہ حالت واتیناہ فی الدنیا حسنہ کی گویا تفسیر ہے معراج کی صحیح حدیثوں میں ہے کہ معراج کی رات حضرت محمد ﷺ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سب انبیاء سے اوپر ساتویں آسمان پر دیکھا یہ حالت وانہ فی الاخوۃ لمن الصالحین کی گویا تفسیر ہے آنحضرت ﷺ کو دین ابراہیمی پر چلنے کا جو حکم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف سے دین ابراہیمی کے جو مسئلے منسوخ نہیں ہوئے ان پر چلنا چاہیے۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 360۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 591 ج 2۔
Top