Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 17
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس جو يَّخْلُقُ : پیدا کرے كَمَنْ : اس جیسا جو لَّا يَخْلُقُ : پیدا نہیں کرتا اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا۔ پس تم غور نہیں کرتے
تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے ؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
17۔ 18۔ اللہ پاک نے آسمان اور زمین اور دریا کے پیدا کرنے کا ذکر اور اس سے جو جو نفع انسان کو پہنچتا رہتا ہے اس کا ذکر کر کے اب مشرکوں کو یوں سمجھایا کہ اب جو تم بتوں کی عبادت کرتے ہو اور انہیں خدا کا شریک ٹھہراتے ہو تو تم ہی بتلاؤ کہ ان بتوں نے کونسا آسمان بنایا کون سی زمین پیدا کی کدھر انہوں نے دریا بہائے اگر کچھ نہیں کیا تو پھر یہ اس خدا کے برابر کیوں کر ہوسکتے ہیں جس نے ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ تھوڑا سا تو غور کر کے دیکھو تمہارے خدا نے تم پر کیا کیا احسان کئے اور کیس کیسی نعمتیں تم کو دیں کیا تم ان کا شمار کرسکتے ہو اور اس کا شکر ادا کرسکتے ہو۔ ہرگز نہیں گن سکتے اگر وہ اپنی ہر نعمت کے مقابل میں تم سے شکر چاہے تو بالکل بجا ہے اور تم سے کوتاہی ہونے پر تمہیں سزا کا مستحق ٹھہرا سکتا ہے مگر اس نے ان باتوں سے درگز کی اور تم پر مہربانی کی کہ ہر نعمت پر تم سے شکر کا طلب گار نہیں ہے البتہ بہت سی نعمتوں کے مقابل میں تم سے ایک تھوڑا سا یہ شکریہ ادا کرنے کو کہتا ہے کہ تم خالق اور مخلوق کو برابر ٹھہرا کر اللہ کی تعظیم میں فرق نہ ڈالو اپنے خالق کو یاد رکھو یہ نہیں کہ بالکل ہی اس کو بھول جاؤ اور اس کا شریک ٹھہرانے لگو۔ ابن جریر نے ان اللہ لغفور رحیم کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ وہ تمہارے قصور کو معاف کرنے والا ہے جو ان نعمتوں کے شکریہ میں تم سے ہوا ہے اور جب تم شرک سے توبہ کرلو اور اس کی اطاعت اور اس کی خوشی کے ہر کام کی طرف رجوع ہوجاؤ تو وہ تم پر ازحد مہربان ہے اور توبہ قبول کرلیتا ہے اور توبہ قبول ہونے پر عذاب نہیں کرتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں انسان کی ضرورت اور راحت کی چیزوں کا ذکر فرما کر اوپر کے ذکر کا یہ نتیجہ اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ سب چیزیں تو اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس لئے اب یہ بات ان مشرکوں کو سوچنی چاہئے کہ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کئے جانے کا کیا حق ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اگر بندے اس حق کو ادا کریں گے تو ان کا اللہ پر یہ حق ہوگا کہ اللہ ان کو عقبیٰ کے عذاب سے بچاوے 1 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص شرک سے بچا تو اس نے حق بندگی ادا کر کے اس معبود حقیقی کی تعظیم میں فرق نہیں ڈالا اس لئے سوا شرک کے کچھ اور گناہ ہوں گے۔ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور جو شخص جیتے جی شرک میں گرفتار رہا اور اسی حالت میں بغیر توبہ کے مرگیا تو اس نے اللہ کی تعظیم میں فرق ڈال کر خالق اور مخلوق کا مرتبہ ایک کردیا۔ اس لئے ایسا شخص اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ اللہ اس پر مہربان ہو اور اس کے گناہوں کو بخشے غرض حافظ ابو جعفر ابن جریر نے ان اللہ لغفور رحیم کا جو مطلب بیان کیا ہے وہ معاذ بن جبل ؓ کی حدیث کے موافق ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 13 کتاب الایمان۔
Top