Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 19
وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تُسِرُّوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
اور جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو سب سے خدا واقف ہے۔
19۔ 21۔ مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کی یہ دوسری مذمت ہے کیونکہ پہلے اس سے یہ فرمایا تھا کہ زمین و آسمان اور دریا اور ان کے اندر جو جو چیزیں ہیں سب خدائے وحدہ لا شریک نے پیدا کیں ان مشرکوں کا اگر یہ اعتقاد ہے کہ جن بتوں کی یہ پوجا کرتے ہیں ان میں ان چیزوں کے پیدا کرنے کی قدرت ہے یا کوئی شئے انہوں نے پیدا کی ہے تو اس شئے کی نشان دہی کی جاوے ورنہ پھر ان کو اس خالق کے برابر کیوں سمجھتے ہیں اب دوسری بات یہ فرمائی کہ اللہ پاک ہر شخص کے ظاہر اور باطن کو یکساں جانتا ہے جو کام چھپ کر کیا جاتا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اور جو کھلم کھلا کیا جاتا ہے اسے بھی وہ دیکھتا ہے تو کیا ان بتوں کو بھی ایسا علم ہے کہ ہر ظاہر اور باطن کو جان لیں اگر یہ بات نہیں تو ان بتوں سے مراد کا مانگنا بےفائدہ ہے کیوں کہ جب یہ بت مراد مند کی مراد سے ہی بیخبر ہیں تو پھر کسی کی مراد کو یہ کیا پورا کرسکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ مشرک جو خدا کے سوا ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں ان میں خاک کسی شئے کے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے یہ تو خود مخلوق ہیں اور بالکل بےجان ہیں ان میں حس و حرکت تک نہیں زندہ ہونا تو درکنار نرے پتھر ہی پتھر ہیں ان سے تو لاکھ درجہ یہ مشرکین خود بہتر ہیں کیوں کہ زندہ تو ہیں چلتے پھرتے ہیں آنکھوں سے دیکھتے کانوں سے سنتے ہیں ان کے بتوں کو کیا خبر ہے کہ ان کے پجاری اور یہ خود مرنے کے بعد کب زندہ ہوں گے اور زندہ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے کیوں کر بیزاری ظاہر کریں گے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں کچھ لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا رنج اور صدمہ ان کے رشتہ داروں اور معتقدوں کو بھی تھا شیطان نے موقع پا کر ان لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اگر ان مرے ہوئے نیک لوگوں کی مورتیں بنا کر آنکھوں کے سامنے رکھ لی جاویں تو ان کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج و صدمہ کم ہوجاوے گا ان لوگوں نے شیطان کے وسوسہ کے موافق وہ مورتیں بنالیں اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پوجا ہونے لگی 1 ؎۔ سورت یونس میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن جب ان مورت پرستوں کا اور ان نیک لوگوں کا اور پتھر کی مورتوں میں جان ڈالی جا کر ان کا غرض ان سب کا آمنا سامنا ہوگا تو وہ نیک لوگ اللہ تعالیٰ کو گواہ قرار دے کر اس پوجا سے اپنی بیخبر ی جتلا دیں گے اسی کو فرمایا کہ ابھی تو اصل نیک لوگوں اور ان کی مورتوں کے پتھروں کو قیامت کا حال کچھ معلوم نہیں لیکن قیامت کے دن جب ان سب کو جمع کیا جا کر بت پرستی کی دریافت کی جاوے گی تو ان بت پرستوں کو اپنی حال پر پچھتانا پڑے گا چناچہ اس پچھتاوے کا ذکر سورت بقرہ میں گزر چکا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 32 ج 2 تفسیر سورت نوح۔
Top