Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں۔
22۔ 23۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیتوں میں بتوں کے معبود ہونے میں طرح طرح کی خرابی بیان فرما کر اب یہ فرمایا کہ تم لوگوں کا معبود وہی اکیلا خدا ہے جس نے ساری چیزیں دنیا میں پیدا کی ہیں دنیا میں تو چاہے تو لوگ جس کو معبود ٹھہرا لو مگر آخرت میں کوئی جھوٹا معبود نظر نہیں آئے گا اکیلا خدا ہی خدا ہوگا اور سارے جہان کا حساب و کتاب اسی کے ہاتھ میں ہوگا پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ کفار جو اپنے عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں اور بتوں کی عبادت نہیں چھوڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے دن کا یقین ان کے دلوں میں نہیں ہے آخرت کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قیامت وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے دنیا کی زندگی اور مالداری ہے پھر جب مرگئے تو مرنے کے بعد زندہ ہونا کیسا اسی خیال نے ان کو گمراہ کر رکھا ہے اور حق بات کے قبول کرنے سے یہ لوگ منہ موڑتے ہیں اگر آخرت کا خوف ان کے دل میں ہوتا اور یہ اس بات کو سمجھ لیتے کہ آخرت میں اکیلے اللہ سے کام پڑنے والا ہے دنیا کی مالداری اور یہ بت وہاں کچھ کام نہ آویں گے تو پھر آخرت کی درستی کی کسی بات کے ماننے میں ان کی مکڑائی باقی نہ رہتی لیکن ان کے آخرت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کے انتظار میں کچھ فرق نہیں آتا ان کے دل کی چھپی ہوئی مکڑائیاں اور ان کے ہاتھ پیر کے ظاہری سب کام اس کو معلوم ہیں اور اس طرح کی مکڑائی کرنے والے اس کو بالکل ناپسند ہیں اس لئے عقبیٰ میں یہ لوگ اپنے کئے کی پوری سزا پاویں گے مشرکین مکہ اپنی مالداری کے غرور میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھ کے مسلمانوں کو حقیر جانتے تھے۔ چناچہ سورت الزخرف میں آوے گا کہ ولید بن مغیرہ اور عروۃ بن مسعود ان دو مالدار شخصوں کا حوالہ دے کر کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت سچی ہوتی تو ان مالدار دونوں شخصوں میں سے کسی کو ہوتی اور تنگدست مسلمانوں کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر دین اسلام سچا ہوتا تو ان تنگ دست لوگوں کے اسلام لانے سے پہلے ہم مالدار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے کیوں کہ اللہ نے اپنی مہربانی سے جس طرح ہم کو دنیا میں خوشحال کیا ہے عقبیٰ میں بھی ہم اس کی مہربانی کے زیادہ مستحق ہیں چناچہ اس کا تفصیلی ذکر سورت الاحقاف میں آوے گا مشرکوں کی اس بات کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے سورت الزخرف میں یہ دیا ہے کہ دنیا فانی کا مال و متاع اللہ کے نزدیک کچھ قابل قدر چیز نہیں ہے اس لئے اس کو اللہ کی مہربانی کا نتیجہ خیال کرنا بڑی غلطی ہے اور یہاں اتنا ہی فرمایا کہ ان لوگوں کی مالداری کے غرور نے ان کو عقبیٰ کی باتوں کے انکار پر آمادہ کیا ہے۔ پہلے صاحب شریعت بنی نوح (علیہ السلام) سے لے کر فرعون تک جو پہلی امتیں اسی طرح کے غرور کی باتوں کے سبب سے غارت ہوئیں جن کے قصے پہلے گزر چکے ہیں وہ سب قصے ان اللہ لا یحب المتکبرین کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مغرور لوگوں کو پسند نہیں کرتا اس لئے اس نے ایسی بہت سی پہلی امتوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے مالدار گنہگار لوگوں کو قیامت کے دن جب دوزخ میں ڈالا جاوے گا تو دوزخ میں ڈالتے ہی فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس مالداری کے غرور نے تم کو عقبیٰ کے اس عذاب سے غافل رکھا آج اس عذاب کے آگے اس مالداری کی راحت تمہیں کچھ یاد ہے یہ لوگ قسم کھا کر جواب دیں گے کہ نہیں۔ اسی طرح نیک تنگدست لوگ جب جنت میں جاویں گے تو ان سے بھی فرشتے پوچھیں گے کہ جنت کی ان نعمتوں کے آگے دنیا کی تنگدستی تمہیں کچھ یاد ہے کہ نہیں تو وہ لوگ بھی قسم کھا کر جواب دیویں گے کہ نہیں 1 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان مشرکوں کو جس مالداری کے غرور نے عقبیٰ کی باتوں سے غافل رکھا عقبیٰ کے عذاب کے آگے وہ مالداری ان کو یاد بھی نہ رہے گی اور جن تنگدست مسلمانوں کو یہ مشرک حقیر جانتے تھے اور وہ مسلمان اپنی تنگدستی پر صبر کرتے تھے اللہ تعالیٰ عقبیٰ میں ان کو جنت کی وہ نعمتیں دیوے گا کہ ان کو بھی دنیا کی وہ تنگدستی بالکل خواب و خیال ہوجاوے گی۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفۃ الجنتہ واھلھا۔
Top